جدید چکاچوند سے دور، ماضی بعید کا کھلاڑی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • جدید چکاچوند سے دور، ماضی بعید کا کھلاڑی

    تحریر: ابنِ ریاض

    اس کھلاڑی کے پاس عمر اکمل اور احمد شہزاد والے شارٹ تھے اور نہ ہی یونس خان والے سویپ۔  نہ مصباح الحق کی طرح دباؤ ختم  کرنے کے لئے لمبا چھکا لگا سکتا تھا اور نہ ہی محمد  یوسف جیسا اسٹائلش تھا۔ نا ہی انضام الحق جیسا ڈیل دول تھے کہ اپنی موجودگی سے ہی دوسروں کو متاثر کر دے اور نہ ہی جاوید میانداد جیسی ذہانت۔ ایک محدود صلاحیت کا حامل بلے باز تھا جس نے اپنی محنت، اپنے خلوص اور اپنی محدود صلاحیت کے مکمل استعمال سے خود کو ان بلے بازوں کی صف میں جا کھڑا کیا۔ ٹیسٹ  رنز کی بات ہو تو وہ پاکستان کے پہلے پانچ کھلاڑیوں میں شامل ہے۔ سینکڑوں کی بات کی جائے تو بھی یہی صورت حال ہے۔ تہرے سینکڑے کی بات کی جائے تو پھر وہ پہلے چار میں شامل ہو جاتا ہے اور اگر بات کی جائے آسٹریلیا میں اوسط اور سب سے زیادہ انفرادی سکور کی تو وہ سب سے اوپر کھڑا نظر آتا ہے۔ اس سب میں اس بات کو شامل کر لیا جائے کہ اس نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور لیگ اسپنر کیا تھا تو ان ریکارڈز کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

    پچھلے چار پانچ برس اس کھلاڑی جس کا نام اظہر علی ہے کے لئے کافی مشکل تھے۔ یونس و مصباح کے دور میں وہ پاکستانی بیٹنگ لائن کے بڑے ستونوں میں شامل تھے اور امید تھی کہ مصباح و یونس کے بعد وہ بلے بازی کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیں گے مگر توقعات کا بوجھ ان کے کندھے نہ اٹھا پائے اور اظہر علی کی ذاتی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ ہم پاکستانی یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ پچھلے چار سال کرک انفو کے بقول کرکٹ کی تاریخ میں گیند بازی کے لئے بہترین سال رہےہیں اور ان میں بڑے بڑے مہان بلے بازوں کی کارکردگی کا گراف نیچے آیا ہے۔ان میں بھارت کے پجارا، کوہلی ،راہنے جیسے بلے باز بھی شامل ہیں۔ بلکہ پہلے تو جو روٹ بھی انھی بلے بازوں میں شامل تھے مگر پچھلے دو سال سے شاندار کارکردگی دکھاکر انھوں نے کافی ازالہ کر لیا ہے بلکہ اپنا ریکارڈ قدرے بہتر کر لیا ہے جبکہ بھارتی کھلاڑیوں کی کارکردگی اظہر سے کہیں نیچے ہے۔ بلکہ پجارا نے آج باون اننگز کے بعد سینکڑا جڑا   ہے اور کوہلی پچھلے تین سال سے سینکڑے کے متلاشی ہیں مگر وہاں ان پر اتنا دباؤ نہیں آیا۔ اس کی ایک وجہ شاید بھارت کا مسلسل جیتنا بھی ہے جبکہ پاکستان ٹیم کی کارکردگی کافی مایوس کن ہے اور ظاہر ہے کہ مداح اس کا غصہ انھی کھلاڑیوں پر نکالیں گے جن سے ان کی امیدیں زیادہ ہوتی ہیں۔

    اظہر علی پچھلے بارہ سال میں پاکستان کی بلے بازی کی دیوار رہے ہیں۔ مصباح و یونس دور میں بھی اظہر علی کی وکٹ کا گرنا بالخصوص دوسری  اننگز میں گرنا پاکستان کے لئے نیک شگون نہیں ہوتا تھا۔ 2016ء کا اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ دیکھیں۔ اظہر علی آؤٹ ہوئے اور پاکستان کی چھ سات وکٹیں ایک ہی سیشن میں گریں اور میچ پاکستان ڈرا کرتے کرتے ہار گیا۔ اسی برس ہیملٹن میں آخری روز اظہر علی چائے کے وقفے سے چند منٹ پہلے آؤٹ ہوئے اور پھر باقی نو وکٹیں مل کر ایک سیشن نہ گزار سکیں۔ ایسا ہی کچھ اسی سال میلبورن میں بھی ہوا جب آخری روز اظہر علی ہی پاکستان کی آخری امید تھے اور پھر وہ ایک مشکوک فیصلے کا شکار ہوئے۔ موجودہ برس آسٹریلیا پاکستان کا لاہور ٹیسٹ لے لیں۔ پاکستان بہت مناسب کھیل رہا تھا کہ اظہر کو ایک مشتبہ فیصلے سے باہر بھیج دیا گیا اور پھر پاکستان کی بقیہ  بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔

     جب سے ہم کرکٹ دیکھ رہے ہیں پاکستان میچ ونرز کی ٹیم تھی۔ ہر کھلاڑی جس دن فارم میں ہوتا اکیلا ہی میچ نکال کر لے جاتا تھا۔  سو پاکستان ٹیم نے کم ہی کبھی بطور ٹیم کرکٹ کھیلی۔ زیادہ تر میچ انفرادی کارکردگی کے مرہون منت رہے چاہے وہ گیند بازی میں ہو یا بلے بازی میں۔ سو نوے اور دو ہزار کی پہلی دہائی کے کھلاڑیوں میں میچ ونر کی خوبی کے علاوہ کئی خامیاں بھی تھیں۔  کھلاڑیوں کا کچھ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آپس میں لڑائی جھگڑے کرنا، ایک دوسرے کے خلاف گروپنگ کرنا اور میچ فکسنگ جیسے معاملات میں ملوث  ہونا بھی شامل تھا۔ 2009-2010ء کے دورہ آسٹریلیا میں  ڈریسنگ روم سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر یوسف و یونس پر پابندی عائد ہوئی تو اظہر علی کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ دوسرے ہی ٹیسٹ میں پاکستان نے پندرہ سال بعد آسٹریلیا کو ہرایا تو اس میں اظہر علی کی نصف سینچری بھی شامل تھی۔ پھر تین ٹیسٹ بعد انگلینڈ کو نو سال بعد ہرایا گیا تو اظہر کا اس میں حصہ پہلی اننگز میں بانوے ناٹ آؤٹ تھا۔ اگلے ٹیسٹ نے پاکستان کرکٹ کی بنیادیں ہی ہلا دیں جب تین کھلاڑی میچ فکسنگ میں پابندی کا شکار ہو گئے۔اس کے بعد مصباح کی قیادت میں پاکستان نے صاف کرکٹ کے سفر کا آغاز کیا جس میں میچ ونر نہیں تھے بلکہ بطور ٹیم کھیلنے والے کھلاڑی تھے۔ اظہر علی اس دور میں خوب ابھرے کیونکہ یہی ان کا کھیل تھا۔  وہ کبھی کبھی بڑا سکور کرتے تھے بلکہ پہلی سینچری بنانے میں اظہر کو شاید دس سے زیادہ ٹیسٹ  لگے مگر وہ مستقل مزاجی سے تیس چالیس پچاس کرتے تھے اور اپنا ایک سودس فیصد میدان میں دیتے تھے۔  اپنی وکٹ کی قیمت لگاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خراب شارٹ کھیل کر مفت میں وکٹ نہ گنوائیں۔ دوسری ٹیم کو میدان میں دو دون کھڑا کر کے تھکا کر متحدہ عرب امارات  میں ہرانے کی حکمت عملی کا وہ اہم ستون تھے۔

    اظہر علی سست کھلتے تھے مگر ذاتی ریکارڈ کے لئے بلکہ ٹیم کی حکمت علمی کے مطابق۔ جب ضرورت پڑی تو انھوں نے تیز بھی کھیلا۔ دو ہزار سولہ میں ابوظہبی میں ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسری اننگز میں تیز رنز بنانے کے لئے اپنی سینچری کو پسِ پشت ڈالا اور اکانوے پر وکٹ دی۔ سری لنکا کے خلاف 2014ء میں آخری دو سیشنز میں تین سو سے زیادہ کا ہدف ملا تو اظہر علی نے تیز سینکڑا سکور کر کے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد دی۔ اور چیمپئنز ٹرافی 2017ء میں ان کا کھیل کون بھول سکتا ہے جب انھوں نے پچاس کی اوسط سے زائد سے رنز کیے بلکہ فائنل کے اصل ہیرو وہی تھے کیونکہ ابتداء میں  رن ریٹ اظہر علی نے برقرار رکھا تھا جب فخر کو کھیلنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ ہمارے خیال میں تو 2019ء کے عالمی کپ میں اظہر کی موجودگی ضروری تھی اور پاکستان کے پہلے راؤنڈ میں باہر ہونے کی یہی وجہ تھی کہ سٹروک کھیلنے والے تو کافی تھے مگر وکٹ روکنے والا اور ایک دو کر کے محنت والے رنز بنانے والا کھلاڑی کوئی نہیں تھا۔

    پاکستان کے عوام ہر معاملے میں  جلد بازی کے عادی ہیں۔ انھیں ٹیسٹ میچ کا نتیجہ بھی پہلے سیشن میں ہی چاہیے ہوتا ہے(نتیجہ ہونا بھی جیت کی صورت میں چاہیۓ) اور ان کا پسندیدہ کھلاڑی وہ ہوتا ہے جو تیز رفتاری سے دس بیس رنز بنا کر پویلین کو لوٹ آئے۔ اظہر علی جیسے کھلاڑی گمنام سپاہی کی طرح ہوتے ہیں جو کام کریں تو ان کا کام کسی کو نظر نہین آتا اور اگر وہ ناکام ہو جائیں تو ہر قسم کے طعن و تشنیع ان کا مقدر بنتی ہے۔ اظہر علی تو وہ شخص ہے کہ جو میچ کی صورت حال کے مطابق بھی کھیل رہا ہوتا تھا تو نوے پچانوے فیصد لوگ اسے گالیاں ہی نکالتے رہے یا کم از کم اس کی بیٹنگ سے ناخوش ضرور ہوئے۔

    تاہم ہمارے خیال میں اظہر علی کا مقام و مرتبہ اتنا ہے کہ ایک مکمل تحریر اس کا حق ہے۔ پاکستان کی کرکٹ اگرآج صاف ہے تو وہ اظہر علی جیسے بے لوث کھلاڑیوں کی وجہ سے ہے۔ایک ایسا شخص کہ جس کے لئے کرکٹ اور ملک ہر چیز سے بڑھ کر تھی۔ ایک ایسا شخص کہ جس کو جو بھی کردار دیا گیا اس نے مقدور بھر اسے نبھانے کی کوشش کی۔ اسے کپتان بنایا اس نے کپتانی کر لی۔ اسے ہٹا کر اس سے جونئر کو کپتان بنا دیا تو اس نے کوئی چوں چراں نا کی بلکہ اس کی مکمل حمایت کی اور ٹیم کی جیت کے لئے کوشش کی۔ کوئی کوچ آیا اسے اظہر علی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا بلکہ سب نے اس کی تعریف کی۔ ایک ایسا کھلاڑی جو سینئر ہو کر کچھ عرصہ قبل تک شارٹ لیگ پر فیلڈنگ کرتا  رہا۔ اب اس کے اعضاء کچھ کمزور ہوئے تو ہٹا۔ ایک ایسا شخص کہ جس کی جہاں ضرورت پڑی وہ وہیں موجود۔ اسےچھٹے نمبر پر کھلایا اس نے کھیلا۔ اسے نمبر تین پر کہا اسنے کھیلا۔ اسے اوپنر بنا دینا اس نے آمنا و صدقنا کہا۔ اسے دوبارہ نیچے لے گئے وہ چلا گیا اور کبھی کسی سے شکایت نہیں کہ میں اس لئے رنز نہین بنا رہا کہ میرا نمبر اوپر نیچے کر دیتے ہیں۔،

    ایسا شخص کہ جس نے حفیظ کے ساتھ مل کر محمد عامر کے ٹیم میں آنے کی مخالفت کی۔ایک ایسا شخص کہ جو وزیر اعظم سے ملنے اس لئے چلا گیا کہ ان کے بنائے گئے سسٹم سے علاقائی کرکٹ کھیلنے والے لڑکے بے روز گار ہو رہے ہیں۔ ایک ایسا شخص کہ جو نوے سے زائد میچ کھیل چکا ہے لیکن کبھی کسی سے بدتمیزی نہیں کی۔ ایک ایسا شخص کہ جو کپتان بھی تھا تو شاید ہی اس نے کبھی کسئ کو گالی دی ہو یا غصے سے یا بدتمیزی سے پکارا ہو۔ایک ایسا شخص کہ جس نے کبھی میدان میں کوئی اوچھی حرکت نہیں کی۔ جسے کرکٹ سے زیادہ باہر کی چکاچوند نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ ایک ایسا شخص کہ جسے اخبارات و خبروں میں رہنے کا شوق نہیں۔ جس نے ہر تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور جواب بلے سے دینے کی کوشش کی۔ کہیں سے بھی یہ شخص موجودہ پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں جیسا لگتا ہے ؟ ٹیلنٹ ہو یا حرکات؟ اظہر علی ماضی بعید کا کھلاڑی محسوس ہوتا ہے جو اتفاق سے اس ٹیم میں آ گیا تھا۔ بھلے ٹیلنٹ میں اور صلاحیت میں اظہر علی بہت سے کھلاڑیوں سے کم ہو گا مگر انسانیت، وطن محبت ، اپنے رزق سے خلوص اور اخلاقی اقدار میں وہ کسی سے کم نہیں۔

    ٹیگز: , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔