بلے بازوں کا شہنشاہ «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • بلے بازوں کا شہنشاہ

    تحریر: ابنِ ریاض

    کرکٹ کے کھیل میں بے شمار کھلاڑی آئے اور انھوں نے ان گنت ریکارڈز بنائے۔ کسی نے گیند بازی میں نام کمایا  تو کوئی شانداز بلے باز تھا۔ کوئی وکٹ کیپنگ کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے تو چند ایک ایسے ہیں جن کی فیلڈنگ کا کوئی ثانی نہیں۔ تاہم بلے بازی کی بات کی جائے تو کچھ کھلاڑی لمبے قیام کے لئے شہرت رکھتے ہیں تو کچھ کی جارح مزاجی مقبولیت کا باعث ہے۔ کسی کا کور ڈرائیو شاندار ہے تو کوئی ہک و پل کا ماہر ہے تاہم بلے بازوں کی اس رنگ رنگی کے باوجود اعداد و شمار کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور اس اعداد و شمار کے لحاظ سے ایک بلے باز تمام بلے بازوں سے اتنا ہی اوپر ہے جتنا ماؤنٹ ایورسٹ باقی پہاڑوں سے۔  یہ بلے باز سر ڈونلڈ  بریڈمین ہے اور اس کے ریکارڈ و اوسط زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔

    بریڈ مین کی فی اننگز اوسط  نناوے اعشاریہ نو چار ہے اور یہ اسی اننگز کے بعد ہے۔ دس سے زائد اننگز کھیلنے والے کسی کھلاڑی کی اوسط شاید پینسٹھ تک بھی نہیں ہوگی۔ اپنی ریٹائرمنٹ کی پون صدی بعد بھی وہ چھ ہزار تک رنز بنانے والے(اننگز کے حساب سے) سب سے تیز رفتار بلے باز ہیں۔ ہر تیسری اننگز میں سینکڑا۔ اسی اننگز میں بارہ مرتبہ دوھرا سینکڑا۔ بارہ دھرے سینکڑے تو کسی بلے باز نے آج تک ٹیسٹ میں نہیں بنائے۔ اس کے علاوہ تہرے سینکڑے میں ہر سیشن میں سو رنز بنانا۔ فرسٹ کلاس میں پچانوے کی اوسط اور دوسرے کئی ریکارڈ بریڈ مین کو لافانی ثابت کرنے کو کافی ہیں.

    سب سے اہم بات کہ رنز بنائے کن حالات میں گئے۔ یہ رنز تب بنے جب آج جیسے بلوں کی سہولت بلے بازوں کو میسر نہیں تھی۔1992ء کا عالمی کپ سب کو یاد ہو گا اور اس میں پاکستان کی اننگز کے دوران عمران خان ہک شارٹ کھیلتا ہے اور گیند لیگ امپائر کے قریب جاتی ہے جہاں گراہم گوچ سے کیچ ڈراپ ہو جاتا ہے۔ نوے کی دہائی تک یہ معمول کی بات تھی کہ بلے کا  اوپری کنارا لگتا تو بال لیگ امپائر یا مڈ آن تک جاتی تھی جبکہ اب اس شارٹ پر چھکا عام بات ہے۔ بریڈ مین نے تو نوے کی دہائی سے بھی پانچ چھ عشرے قبل بلے بازی کے جب جواہر دکھائے تو بلوں کے معیار کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ ان بلوں سے اپنے زمانے کے بہترین  گیند بازوں کو تگنی کا ناچ نچا دینا کوئی معمولی کارنامہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔

    بلے تو جیسے بھی تھے  مستزاد یہ کہ ہیلمٹ تو عشروں دور کی بات تھی۔  اور پیڈز اور حفاظتی سامان بھی اس زمانے میں کیا ہو گا ؟ یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ موجودہ دور میں اس قدر حفاظتی سامان کے باوجود چند برس قبل فلپ ہیوژ جس طرح زندگی کی بازی ہارے تو اس زمانے میں تو خطرناک بالرز کے سامنے بلے بازی دراصل زندگی کی جنگ ہوتی تھی۔

    علاوہ ازیں آج پچ بارش ہونے کی صورت میں ڈھانپ دی جاتی ہے اور اگر پچ خطرناک ہو یعنی کھلاڑی کے زخمی ہونے یا اسے چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو تو میچ کے منتظمین میچ کسی بھی لمحے ختم کر سکتے ہیں۔ لیکن جس دور میں بریڈ میں کرکٹ کھیلا اس دور میں پچ ڈھانپنے کی سہولیات میسر تھیں اور نہ ہی بارش تھمنے کی صورت میں پانی کی جلد نکاسی کا کوئی انتظام۔ میچ کے دوران بارش سے بالروں کا فائدہ ہونا بھی معمولی بات تھی۔ پھر اس کے علاوہ باڈی لائن سیریز بھی ان کے کیریئر کا اہم حصہ رہی ہے جب برطانیہ والوں نے آسٹریلیا والوں کو فیلڈرز لیگ پر لے کر ان کے جسمون کو نشانیہ بنانا شروع کیا تھا۔ اس سیریز میں انھوں نے نا صرف خود کو زخمی ہونے سے بچایا بلکہ چھپن  کی اوسط سے رنز بھی بنائے۔ یہ ان کے کیریئر کی ناکام ترین سیریز تھی۔ اس اوسط سے آج کوئی اپنے کیریئر کا اختتام کرے تو وہ کرکٹ کی تاریخ کے عظیم کھلاڑیوں میں شامل ہو گا جبکہ بریڈ مین کے لئے یہ اوسط ان کی اوسط کے نصف سے کچھ ہی اوپر تھی۔

    کچھ لوگ یہ اعتراض بھی کریں گے کہ ان کے ستر  فیصد سے زائد رنز ایک ہی ملک کے خلاف ہیں ورنہ شاید ان کی اوسط اتنی زیادہ نہ ہوتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت برطانیہ ہی ان کا سب سے بڑا حریف تھا۔ جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور بھارت کہیں کمزور ٹیمیں تھیں۔نیوزی لینڈ کے خلاف وہ کھیلے نہیں جبکہ بھارت و جنوبی افریقہ کے خلاف ان کی اوسط پونے دو سو سے زیادہ ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف محض پچہتر اور برطانیہ کے خلاف نوے۔ علاقائی کرکٹ میں بھی اتنی زیادہ اوسط ہم نے کسی کھلاڑی کی نہیں سنی جبکہ اس میں بالنگ کا معیار بھی کہیں کم تر ہوتا ہے۔

    اسد شفیق اور اظہر علی کی کارکردگی کا گراف جب گرا تو ان کے کچھ  حمایتیوں کی رائے تھی کہ وہ محض ٹیسٹ میچ کھیلتےہہیں اور پاکستان کم ٹیسٹ میچ کھیلتا ہے جس سے انھیں اپنی فارم دوبارہ حاصل کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔بریڈ مین نے باون ٹیسٹ کوئی اکیس سالوں میں کھیلے۔ یہ سال میں ڈھائی ٹیسٹ بنتے ہیں۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے چھ سال نکال دیئے جائیں تو پندرہ سال میں باون ٹیسٹ یعنی سال کے ساڑھے تیں ٹیسٹ۔  صرف تین ٹیسٹ سالانہ کھیلنا اور ان میں اپنی کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا کس قدر حیران کن و غیر معمولی کارنامہ ہے۔

    بریڈ مین کی نصف اننگز یعنی اسی میں سے انتالیس اننگز ایسی ہیں جہاں وہ پچاس سے کم پر آؤٹ ہوئے۔ گویا کہ ان کا آغاز اتنا پراعتماد نہیں ہوتا تھا اور گیند باز کے پاس انھیں آؤٹ کرنے کا موقع ہوتا تھا۔لیکن بقیہ اکتالیس اننگز میں بارہ نصف سینچریاں اور انتیس سینچریاں ہیں۔ یعنی جب وہ سیٹ ہو جاتے تھے تو پھر وہ ایک ناقابل تسخیر قلعے کا روپ دھار لیتے تھے جس میں شگاف کرنا مخالف  گیند  بازوں کے لئے آسان نہیں ہوتا تھا۔ بریڈ مین جیسے کیریئر اوسط کے معاملے میں نروس نائٹیز کا شکار ہوئے بالکل زندگی میں بھی یہی معاملہ رہا اور وہ عمر کی سینچری سے آٹھ برس قبل ہی بانوے برس کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے تا ہم کرکٹ ان کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ بلے بازی کے ریکارڈز کے ہر صفحے پر ان کا نام پوری آب و تاب سے  جگمگا رہا ہے۔ رنز اور سینچریوں میں کئی کھلاڑی ان سے کہیں آگے جا چکے ہیں مگر  معیار میں وہ  بریڈ مین کا نصف بھی نہیں اور یہی  بریڈمین کی عظمت ہے۔

    ٹیگز: , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔