یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

    تحریر: ابن ریاض

    سینا(جنوبی افریقہ ،انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا) ممالک میں نیوزی لینڈ وہ ملک تھا کہ جہاں 1990ء سے 2010ء تک پاکستان کا دورہ کا مطلب وہاں ٹیسٹ و ایک روزہ سیریز میں کامیابی ہوتا تھا۔ باقی تین ممالک کی نسبت یہاں پاکستان کا ریکارڈ بہت اچھا تھا۔ باقی تینوں ممالک میں ہم سیریز ہارتے تو تھے مگر مقابلہ پھر بھی کسی حد تک ہوتا ہی تھا سوائے آسٹریلیا کے جہاں 1997ء کے بعد سے مسلسل ناکامیوں کی داستان ہے۔ پچھلی دو ٹیسٹ سیریزوں میں ہم نیوزی لینڈ سے وائٹ واش ہو چکے ہیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ لگاتار تیرہواں ایک روزہ میچ بھی اس ملک میں ہم ہار گئے۔ اور تو اور نیوزی لینڈ کی یہ دوسرے بلکہ تیسرے یا چوتھے درجےکی ٹیم تھی۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے ملک میں بھی نیوزی لینڈ سے ہم تینوں میچ ایسے ہارے جیسے ہم ان کے ملک میں کھیل رہے ہوں۔

    آسٹریلیا و جنوبی افریقہ میں صورت حال یہ ہے کہ 1999ء سے اب تک ہم تیس ٹیسٹ میچوں میں سے ایک جیتے ہیں اور صرف انتیس ہارے ہیں۔ تو ہم جیسے لوگوں کے لئے جنھوں نے اسی کی دہائی میں کرکٹ دیکھنی شروع کی پاکستان کی تنزلی کی یہ داستان افسوس ناک بھی ہے اور دکھ بھری بھی۔ اگر پاکستان نے جلد ٹھوس اقدامات نہ کیے تو کرکٹ کا حال بھی خالم بدہن  ہاکی جیسا ہو گا۔

    کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والے اپنے غم و غصےکا ظہار کر رہے ہیں اور کرکٹ ٹیم کی ناکامی کی وجوہات بھی بیان کر رہے ہیں جو بالکل بجا ہیں۔ کبھی ہمارے بلے باز ناکام ہو جاتے ہیں تو کبھی گیند بازوں کو گیند کروانا بھول جاتی ہے۔ یہ دونوں اگر اتفاق سے ٹھیک چل جائیں تو فیلڈنگ میں ہم کیچ چھوڑ کر میچ ہاتھ سے نکال دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کپتانی کے مسائل اور میچ کے حالات کے مطابق ٹیم کا انتخاب بھی شامل ہے جیسے کہ چیمپئز ٹرافی میں پاکستان اور دوبئی کی وکٹوں پر صرف ایک باقاعدہ سلو گیند باز کھلایا گیا تھا۔ اسی طرح سفیان مقیم کو نیوزی لینڈ میں بالکل آخر میں موقع دیا گیا۔اا؎س کے علاوہ میچ فنشر نہیں ہے ہمارے پاس۔ درمیانے اووروں میں وکٹ لینے والا بالر ہو تو اختتامی یا ابتدائی اوورز کے گیند باز بری طرح پٹ جاتے ہیں۔

    ان تمام معاملات پر پاکستانی کرکٹ سے پیار کرنے والوں نے بخوبی و سیر حاصل تجزیے کیے ہیں اور ہم ان سے متفق ہیں۔ تاہم ایک اہم پہلو جو نظر سے اوجھل ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اک معیاری کھلاڑی نہیں آ رہے جو بین الاقوامی کرکٹ کا دباؤ بردااشت کر پائیں۔

    پہلے ہمارے پاس ایسے کھلاڑی تھے جو مواقع سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے۔ وسیم،وقار، شعیب، ثقلین، انضمام الحق،سلیم ملک، سعید انور، یونس خان،عبدالرزاق  اور دیگر نے کئی مرتبہ شکست کے جبڑوں سے فتح پاکستان کے نام کی ہے  اور کتنے ہی ٹیسٹ میچ  یقینی ہار سے ڈرا میں بدلے ہیں۔

    کچھ کھلاڑیوں کے متعلق بتاتے ہیں کہ وسیم اکرم کو جاوید میانداد نے دیکھا تھا ور پھر ایک  تین روزہ میچ میں کارکردگی دیکھ کر قومی ٹیم کے ساتھ نیوزی لینڈ لے گیا تھا۔ عاقب جاوید ااور سعید انور کا نام ہم نے ٹیم میں آنےکے بعد سنا۔ وقار یونس کو عمران خان نے ٹی وی پر سپر ولز کپ میں بالنگ کرتے دیکھا اور ٹیم میں ڈال لیا۔ انضمام کو بھی عمران نے ہی موقع دیا تھا نیٹ  میں فاسٹ بولرز کے خلاف ان کی پرسکون بلے بازی دیکھ کر۔ مشتاق احمد ڈومیسٹک سے آئے تھے۔عبدالقادر کی جگہ انھیں موقع دیا گیا تھا۔ عامر سہیل بھی ڈومیسٹک سے ہی آئے تھے اور ان کا نام بھی ہم نے ٹیم میں آنے سے پہلے نہ سنا تھا۔ اسی طرح راشد لطیف بھی 1992 کے دورے میں ہمارے لئے نیا نام تھے۔عامر نذیر بھی  ویسٹ انڈیز  دورے میں بالکل گمنام  تھے مگر کمال کی بالنگ کی۔ محمد زاہد اگرچہ کم کھیلے مگر جتنا کھیلے بہت اچھا کھیلے انھیں بھی کسی سلیکٹر یا کھلاڑی نے دیکھا ورنہ گگو منڈی بھی کوئی اتنا اہم علاقہ نہیں۔ ثقلین مشتاق کے ٹیم میں آنے سے پہلے اس کی شہرت ہم تک پہنچ چکی تھی کہ ایک آف اسپنر ایسا ہے جو بہت وکٹیں لیتا ہے(اس وقت تک دوسرا کا علم نہ تھا)۔ اسی طرح سرفراز نواز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس وقت پاکستان میں سب سے تیز رفتاربالر شعیب اختر ہے جو ڈیڑھ سو سے اوپر کی رفتار سے گیند کرتا ہے۔ پھر کچھ ماہ بعد شعیب اختر کو موقع ملا۔ اور ہاں باسط علی کو وقار یونس نے موقع دلوایا تھا جب 1992 کے سیلاب کے بعد سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ورلڈ چیمپئنز بمقابلہ ریسٹ آف پاکسستان کے میچز کھیلے گئے اور وقار یونس ورلڈ کپ نہ کھیلنے کئے باعث ریسٹ آف پاکستان کے کپتان تھے۔ اسی طرح یوسف یوحنا(موجودہ محمد یوسف)کو ہم نے 1998ء کے بنگلہ دیش میں منعقدہ تین ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں کیچ چھوڑتے دیکھا تھا۔ بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو یوحنا تلفظ کرنا بھی نہ آتا تھا۔ عبدالرزاق، کامران اکمل، حسن رضا فیصل اقبال شعیب ملک و دیگر انڈر 19 سے ہی نظر میں تھے اور ان سب کو وقت کے حساب سے مواقع ملے۔ آخری سپر سٹار کہا جائے تو وہ یونس خان تھا جسے 1999ء میں آسٹریلیا میں ہونے والی تاریخی ہزیمت کے بعد سری لنکا کے خلاف ون ڈے اور ٹیسٹ سیریز میں موقع دیا گیا۔

    ان سب کے فرسٹ کلاس ریکارڈ دیکھ لیں۔ میرا نہیں خیال کہ انڈر 19 کے دو تین کھلاڑیوں کے سوا  کسی کے بھی فرسٹ کلاس ریکارڈ اس کے بین الاقوامی ریکارڈ سے بہتر ہوں گے۔ دراصل ان کھلاڑیوں میں اپنی صلاحیتوں پر  اعتماد تھا اور آخری گیند تک لڑنے کا جذبہ تھا اور ان کی یہ صلاحیت کسی جوہری کی نظر میں آ گئی( وہ جوہری کوئی سلیکٹر بھی ہو سکتا ہے اور کوئی سابق کھلاڑی بھی) اور اس کا پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہو گیا۔ اس وقت سلیکٹرز میچز دیکھنے میدان میں جایا کرتے تھے اور سابق کرکٹرز بھی جب موقع ملا  میچ دیکھتے تھے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے تھے بلکہ انھیں کھیل نکھارنے کے مشورے بھی دیتے تھے اور جب موقع ملتا تھا تو ان کے متعلق حکام کو آگاہ بھی کرتے تھے (بغیر کسی لالچ کے صرف پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لئے)۔

    اب جب سے انٹرنیٹ آیا ہے سکور کارڈ ہر میچ کا آپ کے ہاتھ کی انگلیوں پر ہے۔ اس کے علاوہ کرکٹ کمرشل ہونے کی وجہ سے ٹی وی چینلز بھی کافی میچز دکھاتے ہیں۔ سو ہوتا یوں ہے کہ کچھ کھلاڑی جلد نظروں میں آ جاتے ہیں کسی ایک میچ کی کارکردگی یا ایک ٹورنامنٹ کی کارکردگی کی بنیاد پر۔ اور انھیں مواقع دینے کی بات ہونے لگتی ہے کہ جی اس نے پی ایس ایل میں بڑے رنز کیے یا وکٹیں لیں تو اسے ٹیم میں ڈالو۔ بالکل ایسا ہی چار روزہ میچز کا بھی حال ہوتا ہے کہ ہم نیٹ پر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دس بلے باز ہیں جنھوں نے اتنی اوسط سے سب سے زیادہ رنز بنائے اور یہ بالرز ہیں جنھوں نے اتنی وکٹیں لیں اور ہم لوگ اس کارکردگی کی بنیاد پر کہنے لگتے ہیں کہ جی فلاں صاحب کو موقع ملنا چاہیے۔ فلاں کے سااتھ زیادتی ہو رہی ہے اور اسی دباؤ میں آ کر سلیکٹر بھی انھی کو موقع دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے ڈومیسٹک میں کرکردگی دکھانے والوں کو موقع دیا ہے۔

    انٹرنیٹ آپ کو اعداد و شمار تو دیتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ یہ رنز کن حالات میں کن پچوں پر بنائے گئے ہیں۔ ممکن ہے ایک بلے باز دو سو پر دو آؤٹ پر آ کر ڈبل سینچری بنا گیا ہو اور اس کے رنز و اوسط بڑھ گئی ہو جبکہ ایک بندے نے پچاس کی اننگز اس وقت کھیلی جب اس  کی ٹیم کو اسی رنز چاہیے تھے اور صرف دو وکٹیں باقی تھیں تو اس کی یہ کارکردگی تو کبھی اعداد و شمار میں نہیں آئے گی۔ ایسے ہی ایک بالر پچیس کی اوسط سے بالنگ کرتا ہے مگر بڑے بلے بازوں کی وکٹیں لیتا ہےجبکہ ایک اور گیند باز ہے جو  پہلے سپیل کے بعد اس وقت آتا ہے جب ٹیل کی وکٹیں آتی ہیں اور انھیں اڑا کے اپنے اعداد و شمار بہتر کر لیتا ہے۔

    سو ہم نے ہر پہلو پر بات کر لی مگر ہم نے مسئلے کی جڑ کو نہیں پکڑا کہ ہمارے سسلیکٹر تن آسان  ہو گئے ہیں۔ وہ میدان میں جا کر کھلاڑیوں کی کارکردگی نہیں دیکھتے بلکہ اے سی لگے کمروں میں بیٹھ کر ٹیم بنا دیتے ہیں۔ اس میں ان کے بقول نئے خون کو بھی موقع دیا جاتا ہے مگر نیا خون کبھی تو پہلے قدم پر بھی گر جاتا ہے اور اگر کبھی اک آدھ تکا لگ جائے تو ایک دو سیریز کی ہی مار نکلتا ہے۔

    سلیکٹرز کو  تنخواہ اسی کام کی ملتی ہے کہ وہ میدان میں  جائیں اور دیکھیں۔ کرکٹ بورڈ کو کُل وقتی سلیکٹرز رکھنے چاہییں اور ان پر لازم ہو کہ ہر میچ جا کر دیکھیں۔ ہر سلیکٹر کو ایک ایک ریجن دے دیا جائے اور اس  پر لازم کیا جائے کہ وہ دو تین  بہترین صلاحیت واالے بلے باز و دو تین گیند بازوں کی فہرست کرکٹ بورڈ کے حوالے کرے اور پھر بورڈ ان پر کام کرے۔

    اس سلسلے میں کرکٹ بورڈ چند مناسب سابق کرکٹرز جیسے یونس خان و جاوید میانداد کی خدمات سے بھی استفادہ کر سکتا ہے۔ ان لوگوں میں ٹیلنٹ کو پرکھنے کی صلاحیت ہے۔ سو یہ بھی چند ماہ میں عالمی معیار کے کھلاڑی نکال دیں گے۔

    دس پندرہ فیصد میچوں (وہ بھی مححدود اوورزکے) کی بنیااد پر گر ٹیمیں منتخب ہوں گی تو یہی انجام ہو گا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔  جو میڈیا کی آنکھ سے اوجھل ہے ااس پچاسی فیصد اپر بھی نظر کرم ہو جائے تو معاملات سدھر  جائیں گے۔جو محنت کر رہے ہیں پورا پور دن بیٹنگ کرتے ہیں اور وہ گیند باز جو دن میں تیس تیس اوور کروا رہے ہیں اور پوری لگن و صلاحیت وقف کر رہے ہیں کہ انھیں پیسے سے بھی زیادہ کھیل سے جنوں ہے وہ لوگ کسی جوہری کی آنکھ کے متلاشی ہیں۔ ان کی طرف بھی نظر کرم کیجیے۔ یہ شرم ناک شکستوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا بلکہ ان شاء اللہ ایک نئے دور کا آغاز بھی ہو گا۔  اگر ایسے ہی ٹیم سلیکشن کرنی ہے تو ہماری عرض ہے کہ یہ کام ہمیں دے دیں۔ ہم بھی انٹرنیٹ سے ریکارڈ دیکھ کر ٹیم بنا سکتے ہیں اور ہم اس قومی خدمت کی کوئی تنخواہ بھی نہیں لیں گے۔ کرکٹ بورڈ کی کئی لاکھ کی بچت  ہو جائے گی۔

    ٹیگز: , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔