یہ بھی اساتذہ ہیں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • یہ بھی اساتذہ ہیں

    گزشتہ روز یومِ اساتذہ منایا گیا اور ہمیں بھی کچھ لوگ نے تہنیتی پیغامات بھیجے جنھیں ہم نے کچھ پڑھایا نہیں ۔  ہم اس حسنِ ظن پر ان کے شکر گزار ہیں۔ہم ایام پر کم ہی لکھتے ہیں مگر کچھ بہی خواہوں نے ہمیں غیرت دلانے کی کوشش کی کہ آپ کا بھی یہی پیشہ ہے، اس پر تو کچھ لکھ کر اپنی روزی حلال کرنے کی کوشش کرو سو کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ حاضر ہیں۔

    یومِ اساتذہ اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہر برس 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور اس کا آغاز 1994 سے ہوا۔سو ہمارے دور میں ویلنٹائن کی طرح اس دن کا بھی تصور نہیں تھا۔یوں بھی اس دور میں دن منائے بغیر بھی استاد کا احترام عام روایت  تھی۔  ہمارے دور کے نوے فیصد طلباء آج بھی استادکے سامنے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی استاد سے بحث کر سکتے ہیں۔  اس دن کو منانے کا مقصد  استاد کا احترام واضح کرنا ہے اور اس کے کردار کو  اجاگر کرنا ہے جو وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ادا کرتا ہے۔ عام طور پر اس سے مطلب تدریسی اداروں کے اساتذہ لئےجاتے ہیں جو کچھ مخصوص مضامین پڑھاتے ہیں مگرحضرت علی رضی اللہ تعالٰی کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا  وہ میرا استاد ہے۔ہر وہ شخصیت جس کے باعث آپ کی زندگی میں سہولت پیدا ہوتی ہے  وہ آپ کا استاد ہے۔  بھلے سہولت دنیاوی ہو یا اخروی  استاد کا مرتبہ کم نہیں ہوتا۔ہر انسان کی زندگی میں بے شمار استاد آتے ہیں اور  جن کو وہ احترام دیتا ہے انھی سے فیض بھی پاتا ہے۔ کچھ اساتذہ  درج ذیل ہیں۔

    تدریس و تربیت انبیاء کا پیشہ ہے۔انبیاء  نے جو سکھایا اس پر عمل کیا جائے تو آخرت کی کامیابی تو یقینی ہے ہی، ہماری دنیا بھی سنور جائے گی۔سو  اس دن ہمیں مصمم ارادہ کرنا چاہیے کہ ہادیء اعظم ﷺ کی سنتوں پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سلسلے میں کوئی ایک سنت کی مکمل ادائیگی کا  عہد کیا جا سکتا ہے۔ ابتدا میں بھلے جہاد نہ ہو مگر خوش اخلاقی اور غصے کو برداشت کرنے جیسی عادتوں سے ہم آغاز کر سکتے ہیں۔

    جن لوگوں نے ہمیں قرآن پاک پڑھنا سکھایا ، نماز سکھائی ، کلمے سکھائے ، جنھیں عرفِ عام میں ہم مولوی کہتے ہیں۔وہ بھی ہمارے استاد ہیں سواس دن اگر ہمارے پاس ان کا نمبر  نہیں ہے کہ انھیں پیغام بھیجیں تو بھی دعائوں میں ان کا ذکر ہونا چاہیے۔

    ہر شعبے کے ماہرین جو آپ کی مخصوص شعبے میں صلاحیت و استعداد میں اضافہ کرتے ہیں استاد کا ہی درجہ رکھتے ہیں۔انجینئرنگ ، طب، وکالت، بینکنگ اور دیگر مضامین پڑھانے والے تو  ہوتے ہی استاد ہیں مگر بعض ایسے مضامین بھی ہوتے ہیں کہ جن  کی باقاعدہ کلاسزنہیں ہوتیں مگر علم سینہ بسینہ منتقل ہوتا ہے۔مکینک جو چھوٹے کو پانا لگانا سکھاتا ہے وہ اس کا استاد ہی ہوتا ہےاور استاد کو معلوم ہوتا ہے کہ کس موقع پر کونسی گالی کام آئے گی۔ بس ڈرائیور بلکہ ہر گاڑی کاڈرائیور بھی استاد ہوتا ہے۔ اس کا احترام بھی ضروری ہے ورنہ  استاد غصے میں آ گیا تو اللہ میاں کے پاس پہنچانے میں دیر نہیں لگائے گا۔ پرانے زمانے میں اداکاری  و گلوگاری کی کلاسز نہیں ہوتی تھیں۔  ان شعبوں کے ماہرین  ان میں  مہارت حاصل کرنے کے خواہشمندوں میں اگر کچھ صلاحیت دیکھتے   تو انھیں مزید بہتری  کےمشورے دیتے تھے۔سو وہ  ان کے لئے استاد کا  مرتبہ رکھتے تھے۔

    کھلاڑیوں کے لئے اس شعبے کے ماہر کھلاڑی استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ شاعر ادیب بھی اگر نئے ایلِ قلم کی اصلاح کے لئے انھیں کوئی مشورے دیں تو وہ بھی ان کے لئے استاد کا ہی درجہ رکھتے ہیں۔

    درج بالا لوگ اپنے شعبے کے ماہر ہوتے ہیں اور ان سے فیض ان کے ہم شعبہ ہی زیادہ پاتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ ہوتے کہ جن سے پوری قوم فیض پاتی ہے۔کچھ لوگ ہمیں قرض مانگنے کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں کہ کیسے ہر شخص، ہر قوم سے رقم نکلوائی جا سکتی ہے۔  ضروری نہیں کہ یہ  اقتصادیات  و بینکنگ  کے ماہر  ہوں’ یہ  قوم کے حکمران بھی تو ہو سکتے ہیں۔

    اس  کے علاوہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی سب سے بڑی استاد ہے۔  رشتہ دار بھی اسی میں آتے ہیں کیونکہ وہ بھی بات باتپر سبق دیتے ہیں۔زندگی ایسے ایسے سبق سکھاتی ہے کہ کوئی استاد بھی نہیں سکھا سکتا سو زندگی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد سے سیکھتے رہنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر زندگی یعنی استاد سے تعلق توڑ کر خودکشی کرنا  بالکل بھی  ٹھیک حرکت نہیں۔ باقی لوگوں کی زندگی کچھ دن میں اپنے مقام پر واپس آ جاتی ہے مگر خودکشی کرنے والے کا تو  انجام بہت ہی خوفناک ہے۔ یوں بھی اگر کچھ وقت گزار دیا جائے تو  بعد میں انسان خود پر ہنستا کہ اس کے لئے میں خودکشی کر رہا تھا، میرے جیسا پاگل شاید ہی کوئی دوسرا ہو گا۔

    شادی شدہ مردوں کا سب سے بڑا استادان کی بیگم ہوتی ہے ۔  نظم و ضبط کی اپنی  پکی کہ لیکچر ٹائم سے ایک منٹ ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ احساسِ ذمہ داری اتنا کہ کبھی چھٹی بھی نہیں کرتی سوائے جب میکے جائے۔ علم کا یاسا بے کراں سمندر کہ ہر شعبے میں گھنٹوں کے حساب سے بول سکتی ہے۔  کسی سیانے کا قول ہے کہ والدین کو جب  احساس ہو جاتا ہے  کہ لڑکے کو اب وہ مزید کچھ نہیں سمجھا سکتے  گتو وہ اس کی شادی کر دیتے ہیں تا کہ کوئی اور یہ فریضہ انجام دے۔شادی شدہ حضرات کو تو  یومِ اساتذہ کی مبارکباد بھی بیگم کو بھی دینی چاہیے۔

     انسان  کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہر چیز کا تجربہ وہ خود کر سکے سو وہ دوسروں کے تجربوں سے سیکھتا ہے۔ سو بعض لوگ انسان کو بلاواسطہ سکھاتے ہیں۔کوئی طالب علم فیل ہوتا ہے تو  اس کی سرزنش سے دوسرے سیکھتے ہیں کہ پڑھائی وقت پر کی جائے تو فیل ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔حکیم لقمان سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے حکمت کہاں سے سیکھی؟ انھوں نے کہا کہ  بے وقوفوں سے۔ جو حرکت وہ کرتے تھے میں اس سے اجتناب کرتا تھا ۔سو آپ کے ارد گرد بھی کئی ایسے استاد موجود ہیں ان کا احترام بھی ملحوظ رہے۔

     

    ٹیگز: , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔