وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو

    تحریر: ابن ریاض

    بات ہمارے دنیا میں آنے سے قبل کی  ہے۔ہم نے سقوطِ مشرقی پاکستان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر اس پر اتنا پڑھا اور تحقیق کی ہے کہ یہ واقعہ جب یاد آتا ہے تو آنکھوں کو لہو رلاتا ہے ۔  اب اس واقعے کو نصف صدی بیت چکی ہے۔

    پچاس برس قبل یہی دسمبر تھا جب پاکستان کا دایاں بازو الگ ہو کر ایک آزادملک بنا۔ 1947ء سے 1971ء تک یعنی سوا چوبیس برس ایک مملکت کے طور پر رہنے کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ایک بھائی نے دوسرے بھائی سے راہیں جدا کر لیں ؟ ہمارا بیانیہ اور ہمارا نصاب جو کچھ کہتا ہے وہ آدھا سچ ہے۔ دشمن تو ہر زمانے میں موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے سو بھارت اور بھارت نواز  بنگالی سیاست دانوں نے الگ ملک بنایا تو انھوں نے تو وہ کیا جو ان کی دانست میں ٹھیک تھا  مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے بھی اس سقوط سے بری الذمہ قرار نہیں دیئے  جا سکتے۔ سقوط ڈھاکہ کے بے شمار اسباب ہیں۔

    وقت کرتا ہے پرورش برسوں

    حادثہ ایک دم  نہیں ہوتا

     ان  اسباب میں سب سے اہم بنگالیوں کو مغربی پاکستان کے برابر حقوق نہ ملنا اور عنان حکومت اور مستقبل کے لائحہ عمل میں انھیں نظر انداز کرنا تھا۔ ۔ اس کے علاوہ بات چیت کی بجائے بزور طاقت ان سے بات منوانے نے بھی بنگالیوں کے دل میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ انگریزوں کی غلامی سے نکل کر مغربی پاکستان کی غلامی میں جا پھنسے ہیں۔ 1971ء میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود مجیب الرحمان کو حکومت نہ دینا تو تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی اور پھر حالات اس نہج پر چلے گئے کہ واپسی کے سب رستے بند ہو گئے۔

    جب مشرقی پاکستان الگ ہوا توپاکستانیوں کا خیال تھاکہانھیں چند سالوں میں ہی اپنی حماقت کا اندازہ ہو جائے گا۔ مغربی پاکستان  میں بنگالیوں کو ان کے قد کاٹھ اور نسبتاً کمزور مالی حالات کی وجہ سے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم اس وقت بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی بھارت سے بھی زیادہ ہے اور دنیاوی ترقی کے دیگر پیمانوں سے بھی ناپا جائے تو بنگلہ دیش ہم سے کہیں آگے ہے۔

    سقوطِ مشرقی پاکستان بلاشبہ پاکستان کی پون صدی کی تاریخ کا سب سے سیاہ باب ہے مگر قومیں سانحات سے گزرتی ہیں اور ان سے سبق حاصل کرتی ہیں تا کہ دوبارہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ ہماری بدقسمتی کہ ہم نے اس سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور بقول شجاعت حسین اس واقعے بلکہ سانحے پر مٹی پا دی۔ قوم کو اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ انھیں اس سانحےکے محرکات سے آگاہ کیا جائے۔

    اس سانحے کے متعلق کچھ سوالات ہیں جو ہنوز جواب طلب ہیں۔

    اگرمشرقی پاکستان ہم پر اتنا بھاری تھا اور ہم اس سے جان چھڑوانا چاہتے تھے اور  ہم نے اسے  آزاد ہی کرنا تھا تو ہم نے نوے ہزار(چلیں ہم فوجیوں کے خاندانوں کو الگ کر دیتے ہیں ) یا پچاس پچپن ہزار فوجی نوجوانوں کو دشمن کا قیدی کیوں بننے دیا ؟ ہم نے سقوط بغداد دیکھا، سقوط  کابل دیکھا کہیں بھی ہتھیار ڈالنے والا فعل نہیں ہوا۔ ہم سے تو صدام حسین اچھا نکلا کہ اپنے فوجیوں کو کہا کہ جانے بچا لو حتٰی کہ طالبان نے بھی ہتھیار نہین ڈالے اور پہاڑون میں روپوش ہو گئے۔ تاریخ میں کہیں بھی اتنے فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کا ذکر نہیں ہے۔ ملک بھی ہارا اور جگ ہنسائی بھی کروائی۔ اس کا ذمہ دار کون تھا ؟

    تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے حالات  مخدوش ہوتے دیکھ کر جب ہائی کمان سے مشورہ مانگا تو  انھیں صورت حال دیکھ کرفیصلہ کرنے(یعنی لڑائی جاری رکھنے یا ہتھیار ڈالنے) کا اختیار دے دیا گیا تاکہ اپنا دامن بچایا جا سکے۔  کس نے انھیں یہ اختیار دیا تھا؟ اس کے علاوہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے  ہم نے اپنے نوجوان کیوں شہید کروائے ؟ راشد منہاس، سعید افضل خان، مرون لیسلی مڈل کوٹ چار  نشان حیدر پانے والوں سمیت ہزاروں قیمیتی جانوں کی قربانی کیوں دی؟ راشد منہاس سے ہمیں ان کی شہادت کا واقعہ یاد آ جاتا ہے جب مطیع الرحمان انھیں جہاز سمیت بھارت لے جانا چاہتا تھا لیکن راشد منہاس نے اپنی جان پر کھیل کر اس منصوبے کو ناکام بنایا تھا۔ راشد منہاس کو نشان حیدر دیا گیا جبکہ مطیع الرحمان غدار و معتوب ٹھہرا تا ہم 2006ء میں بنگلہ دیش حکومت کی درخواست پر حکومت  پاکستان نے مطیع الرحمان کی باقیات کو بنگلہ دیش بھجوا دیا جہاں مطیع الرحمان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ یہاں بنگلہ دیش پھر ہم سے بازی لے گیا کیونکہ بنگلہ دیش میں بے شمار پاکستانی مدفون ہیں جو اس جنگ میں کام آئے۔خود ہمارے گاؤں سے بھی ایک شہید ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کا مطیع الرحمان اِدھر تھا تو ہمارا میجر اکرم (نشانِ حیدر) آج بھی وہیں ہے۔ کیا ان کی کہیں قبر ہے؟  شاید اس کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔ ہماری حکومت نے تو انھیں لانے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ باقی شہداء کو ہم کس خانے میں ڈالیں؟ کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ ہماری ترجیحات میں ہمارے لئے قربانی دینے والے کہیں بھی شامل نہیں ہیں۔ ہم انھیں کرائے کے قاتل سمجھتے ہیں اور

    مجیب الرحمان اگر غدار تھا تو اسے اگر تھلہ کیس میں سزا دینے کی بجائے رہا کیوں کر دیا گیا ؟  اگر وہ  بے قصور تھا تو اسے کس بات کی سزا دی گئی؟اگر مجیب الرحمان نے اکثریت حاصل کر لی تو اسے حکومت  بنانے کی دعوت کیوں نہ دی گئی؟

    مشرقی پاکستان کے تین اطراف بھارت اور ایک طرف سمندر واقع تھا۔ بھارت کی پاکستان دشمنی سے یقیناً اس وقت کی حکموت بھی آگاہ تھی  مگر حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کی  مشرقی بازو کے دفاؑ کے معاملے میں سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ پورے مشرقی پاکستان میں محض  ایک ہوائی اڈا اور جنگی طیاروں کا  ایک سکواڈرن رکھا۔ جب اس بارے میں بات کی جاتی تو کہا جاتا کہ مغربی پاکستان سےمشرقی پاکستان کا دفاع کیا جائے گا۔  یعنی مشرقی پاکستان پر کسی حملے کی صورت میں مغرنی محاذ کھول دیا جائے گا جس سے بھارت کی توجہ و طاقت تقسیم ہو جائےگی۔تاہم ہماری افواج نے بھی 1965ء جیسی کامیابیاں حاصل نہیں کیں۔ بلکہ مشرقی پاکستان تو ہاتھ سے گیا مغربی پاکستان کے پانچ ہزار مربع کلومیٹر پر بھی بھارت نے قبضہ کر لیا۔

    جب حالات مخدوش تھے تو پولینڈ نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تھی جسے بھٹو نے بھاڑ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم ہزار سال تک لڑیں گے۔ اگر حالات پر ہمارا قابو نہ تھا تو  پولینڈ کی قرارداد کیوں پھاڑی گئی ؟اگر بھٹو نے از خود یہ فیصلہ کیا تھا تو انھیں پاکستان آ کر گرفتار کرنے کی بجائے مسند پر کیوں بٹھایا گیا ؟

    مشرقی پاکستان کے سقوط کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لئے حمو جسٹس حمود الرحمان کی قیادت میں ایک کمیشن بنایا گیا جس نے  حکومت کے ذمہ داروں ، فوجی قیادت و جنگی قیدیوں اور دیگر ذمہ داروں سے انٹرویو کیے اور سقوط کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی۔ تا ہم بھٹو حکومت نے وہ رپورٹ پبلک نہیں کی۔حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کیوں چھپائی گئی؟  اگر شروع میں فوج کا مورال گرنے کا خطرہ تھا تو بعد ازاں کیوں اسے پبلک نہیں کیا گیا بلکہ عام عوام کو تو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا علم بھی دشمن ملک سے ہوا۔ اگر رپورٹ غلط تھی تو حمود الرحمان کو کیا سزا ملی اور اگریہ رپورٹ  ٹھیک تھی تو اس سانحے کے مرکزی کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ؟ اگر نہیں  لایا گیا اور انھوں نے مراعات کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر لی تو اب ان کو علامتی سزا دینے میں کیا قباحت ہے ؟ اس عمل سے اور کچھ نہیں تو آئندہ ایسی حرکت کا سوچنے والوں کو عبرت ضرور حاصل ہو جائے گی۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ جو اس سانحۓکے ذمہ دار تھے ان ہی کی اولادیں ہم پر مسلط ہیں۔

    ہم وہ لوگ ہیں جو چند مرلوں کے لے خون خرابہ تک کر لیتے ہیں اور سالوں مقدمات میں وقت ضائع کرتے ہیں۔حیرت بلکہ افسوس کی بات ہے کہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ ہم نے کھو دیا اور آج تک ہم کسی ایک ذمہ دارکا تعین نہیں کر پائے؟ اس کا مطلب کیا یہ نہیں نکلتا کہ ہم نے انھیں پہلے سے ہی سوتیلا، بےمصرف، فالتو اور بوجھ سمجھ رکھا تھا۔ہم ان سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔

    ۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ اب ہم بطور پاکستانی کشمیر کی آزادی کے متمنی و خواہش مند ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ کشمیر ہمیں ملا نہیں مگر جتنا پاکستان قائد اعظم ہمیں دے گئے تھے ہم تو اتنا پاکستان بھی نہ سنبھال سکے۔  قائد کی وفات کے بعد جونا گڑھ ہاتھ سے گیا اور بعد ازاں مشرقی بازو بھی ہم سے جدا ہو گیا۔

    آج ہم ہر کسی کو غدار کا سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں مگر ہمارا کمال یہ ہے کہ اپنی  تاریخ کے سب سے بڑے سانحے پر ہم نے سب کو پاک اور پوتر  قرار دے رکھا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی انھی حالات کا شکار ہیں جن کا سامنا ہم نے نصف صدی قبل کیا۔

    ٹیگز: , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔