شریکِ جرم «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • شریکِ جرم

    تحریر: ابنِ ریاض

    ممتاز قادری کا باب بھی ختم ہوا۔  فیس بک اور دیگرسوشل میڈیا پر لوگ ملے جلے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کسی کی نظر میں وہ عاشقِ رسولﷺ اور شھید  ہے تو کسی کی نظر میں وہ قاتل ہے۔ تاہم ایک صاحب  کا   نہایت معتدل تجزیہ پیش خدمت ہے:

    ‘بہت کچھ کہہ اور لکھ لیا گیا مگر یاد رہے

    ممتاز قادری نے جان کا سودا اسی دن کر لیا تھا جب اس نے اپنی دانست کے مطابق سلمان تاثیر کو گستاخ سمجھتے ہوئے قتل کیا تھا۔اس لئے کسی حمایتی کو پاکستان یا اس کے قانون کو لعن طعن کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ کسی مذہب بیزار دیسی لبرل کو بغلیں بجانے کی۔ یہ کھیل تو اس دنیا کا سمجھ کر کھیلا ہی نہیں گیا تو بھائی نتیجے کا بھی انتظار کرو۔ دنیا کے قانون کے مطابق ممتاز قادری کے علم کا جو فیصلہ بنتا تھا وہی ہوا۔اور آخرت اگر ہے اور بے شک ہے تو تاثیر اور قادری دونوں کی نیتوں کا میزان تو ہو جائے گا۔تعصب اور نفرت سے اپنے نامہء اعمال خراب نہ کریں’۔

     ہمیں زیادہ حیرت تو سوشل میڈیا پر ہونے والے در عمل پر ہے۔ جہاں  اکثریت نوحہ خوان ہے۔ قادری کو پھانسی دینے پر حکومت اور عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے اور قریب قیاس  یہ ہے کہ مختلف سیاسی و قومی جماعتیں اس پر اپنی سیاست چمکائیں گی مگر کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرے گا۔

     سلمان تاثیر والا واقعہ چار جنوری 2011 کو پیش آیا۔ جب کہ پھانسی پر عمل در آمد 29 فروری 2016 کو۔ گویا کہ قتل اور پھانسی کے درمیان پانچ سال ایک ماہ اور اٹھارہ دن کا وقفہ ہے۔  کیا ان پانچ سالوں میں کسی ذی شعور کو یہ علم نہ تھا کہ قادری نے قتل کیا ہے اور قانون کے مطابق اس کی سزا موت ہے۔ اگر علم تھا جو کہ یقینًا تھا تو کسی نے قانون میں ترمیم کروانے کی کوشش کی  کہ توہین رسالت پر موت کی سزا ختم کر کے عمر قید کر دی جائے۔ اس دوران 2013 میں الیکشن بھی ہوئے۔ کیا ہم میں سے کسی نے اپنے امیدوار سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم تمھیں اسمبلی میں تب بھیجیں گے جب تم ہمارے لئے یہ کام کرو۔ جب یہ کام نہیں کیا تو پھر اب پچھتائے کیا ہوت۔

    جب قوم نے اس وقت ہیرو کا نہیں سوچا اور اپنی ذات برادری، کچھ پیسوں اور معمولی سے مفاد کے لئے ووٹ دیا یعنی کہ ہیرو کو بیچ دیا تو عدلیہ نے تو وہی فیصلہ کیا جو کہ بنتا تھا۔ قادری کو پھانسی کی سزا آج نہیں ملی تھی بلکہ آج اس پر عمل در آمد ہوا۔ گویا کہ پوری قوم کو علم تھا کہ پھانسی ہو چکی ہے اور اس پر عمل در آمد باقی ہے۔ اور مختلف عدالتوں میں اپیلیں جاری ہیں۔

    قوم پھر بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوئی اور کسی معجزے کی آس میں بیٹھی رہی کہ راتوں رات کچھ ایسا ہو گا کہ صبح قادری باعزت بری ہو گا۔

    اللہ نے اس کے علاوہ بھی اس قوم کو اپنے ہیرو کو بچانے کے لئے کئی راہیں سجھائیں۔ پچھلے دور میں جب حکومت عدلیہ بحال نہیں کر رہی تھی تو چوہدری افتخار کی بحالی کے لئے وکلاء نے تحریک چلائی تھی جو کہ بعد میں سیاسی بھی ہو گئی۔ مگر اس کے نتیچے میں چوہدری افتخار بحال ہو گئے تھے۔ زیادہ دورنہیں انتخابات کے نتائج سے پاکستان تحریک انصاف مطمئن نہیں تھی اور بعض حلقوں کے از سر نو گنتی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ حکومت نے پس و پیش سے کام لیا۔ ان کو ٹالنے کی کوشش کی مگر ایک سال بعد ہی ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انھوں نے اسلام آباد میں حکومت کے خلاف دھرنا دے دیا۔ سیاسی جماعت اور ان کی حمایتی ہزاروں کی تعداد میں آ گئے اور حکومت چلنا مشکل ہو گئی۔ایک سو چھبیس دن دھرنا رہا اور آخر کار ان کے مطالبات تسلیم ہوئے۔ ان حلقوں میں از سر نو انتخابات بھی ہو چکے ہیں۔آسان الفاظ میں سمجھا دیا گیا کہ اگر حق لینا ہے تو کوشش کرنی پڑے گی۔ مشقت  اٹھانی پڑے گی۔ درج بالا دونوں تحاریک میں ملک کے گوشے گوشے سے لوگ آئے۔  تحریک انصاف کے دھرنے میں لوگوں نے ٹھنڈ سردی اور سائبان  کے بغیر راتیں گزاریں اور اپنا مطلب پایا۔

    بعض لوگ فرمائیں گے کہ یہاں انصاف خریدا  جاتا ہے۔ انصاف بکتا تو  کیا  عدلیہ میں مسلمان نہیں ہیں؟ اگر وہ ایسے ہی بے ضمیر اور پیسوں پر بک جانے والے منصف تھے تو کیا قوم اپنے ہیرو کے لئے دس دس روپے بھی دیتی تو اٹھارہ کروڑ بندوں کے ایک ارب اسی کروڑ تو اکھٹے کر ہی لیتے۔ اس رقم سے قوم  جج اور انصاف ہی خرید لیتی مگر ایسا بھی نہ ہو سکا قوم سے۔

    اس کے برعکس قادری کے سلسلے میں دعا کے علاوہ شاید ہی کچھ کیا گیا ہو۔ محض دعائوں سے اگر ممکن ہوتا تو کشمیر فلسطین ستر سال سے تصفیہ طلب نہ ہوتے۔ کیا ستر سال میں کوئی بھی مستجاب الدعاء نہیں گزرا بلکہ عاشقانہ مصطفٰی کے لئے اپنے ہی نبی کریم ﷺ کی سیرت پر عمل مشکل ہو گیا ہے۔  جس نبیﷺ کے عاشق کو قوم ہیرو مانتی تھی وہ تو غزوہ بدر میں اپنی فوج لے کر گئے تھے اور پھر دعا مانگی تھی۔ خندق کھود کر دعا کی جاتی تھی تو قبول ہوتی تھی۔  مگر یہاں تو ایسا کچھ نہ ہوا۔ حضرت موسٰی کی قوم نے ان سے کہا تھا کہ موسٰی جائو، تم اور تمھارا خدا لڑو۔ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ خود نبی کریمﷺ کے نواسے کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا کہ کوفہ والوں کے دل تو حضرت امام حسین علیہ سلام کے ساتھ تھے مگر تلواریں مخالفوں کی حمایت میں اٹھیں۔

    اب قوم قادری کو شہید کہے یا قاتل، ان کے مزارات بنوائے اور عرس کروائے  یا خاموش رہے مگر وہ  خود شریک جرم ہے اور محض فیس بک پر سٹیٹس لگانے اور دن منانے سے اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔

    29 فروری 2016ء

    ٹیگز: , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔