شاعروں کے نرغے میں نہتہ کالم نگار «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • شاعروں کے نرغے میں نہتہ کالم نگار

    گذشتہ روز ہمیں اپنی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے انتظامات کے سلسلے میں ‘حرف اکادمی’ کے دفتر جانا ہوا۔ یہ دفتر مریڑ راولپنڈی میں ہے۔ہمارے میزبان یہاں عرفان خانی صاحب تھے جو ایک صاحب طرز شاعر ہیں اور نئے ادیبوں اور شاعروں کو متعارف کروانے میں پیش پیش ہیں-ہمارا کام یہاں زیادہ نہیں تھا اور خیال تھا کہ بیس منٹ آدھ گھنٹے میں ہم فارغ ہو جائیں گے۔ دفتر میں ہماری ملاقات عرفان صاحب کے علاوہ طاہر بلوچ، نعیم جاوید اور سلطان حرفی سے ہوئی۔ معلوم ہوا سب ہی شاعر ہیں۔ یہ شاعروں سے ہماری پہلے بالمشافہ ملاقات تھی۔  ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سب ہی خوش لباس ہیں اور بال کسی کے بھی بکھرے ہوئے نہیں ہیں۔ہمارے شاعر کے تصور کو ایک جھٹکا لگا۔ بھلا ایسے بھی شاعر ہوتے ہیں۔ نہ بکھرے بال اور نہ ہی چہرہ و لباس سے اداسی و یاسیت کی جھلک۔ تاہم ان سے تعارف ہوا اور بات چیت شروع ہوئی تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ابھی ہم اٹھنا ہی چاہتے  تھے کہ عرفان صاحب نے ہمیں روک لیا کہ ہمیں  مزید کچھ لوگوں سے ملوانا ہے۔ یوں بھی ہماری پاکستان میں واقفیت بہت کم ہے تو ہم نے حامی بھر لی۔ کچھ دیر بعد  ڈاکٹر فیصل ودود اور شعیب خان صاحب بھی تشریف لےآئے۔ یہ دونوں شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ یک جان دو قالب ہیں بالکل ابن ریاض اور ابن نیاز کی طرح۔ بعد ازاں امداد حسین نقوی اور نجم الثاقب تشریف لائے اور یوں کورم پورا ہو گیا۔

    سب تشریف لے آئے تو گپ شپ شروع ہو گئی تاہم طاہر بلوچ کو جلدی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ پروگرام شروع ہو کہ انھیں شاید بیگم نے بلایا ہوا تھا۔ پروگرام تو شروع نہ ہوا تاہم طاہر بلوچ کو ضرور کال آ گئی ۔ وہ نوکری کا کہہ کر جاتے بنے۔ معلوم نہیں نوکر کسی دفتر میں تھی یا گھر میں مگر ان کا جانا تو بنتا تھا سو وہ تو گئے۔

    کچھ دیر بعد محفل شروع ہوئی۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ فیصل ودود، شعیب خان اور امداد حسین نقوی صاحب سبھی شاعر ہیں۔ یہ سن کر دل کو ڈھارش بندھی کہ نجم الثاقب صاحب کالم نگار ہیں۔ڈاکٹر صاحب اور امداد نقوی صاحب مہمان خصوصی تھے اور شعیب خان صاحب  صدر۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد مہمانان سے تعارف ہوا۔ ڈاکٹر فیصل صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ ساتھ ساتھ شعر بھی کہتے ہیں۔ جدید شاعری علم عروض اور دیگر اصناف پر ان سے سیر حاصل تبادلہ خیال ہوا۔ باقی لوگوں نے تو شاعری پر سوال داغے پر ہم تو اس میدان میں کورے تھے سو ہم نے ان سے دریافت کیا کہ کیا کبھی مریض کے آپریشن کے دوران کوئی خیال (شاعرانہ خیال)آیا؟  اگر آیا تو اس دوران آپ کا کیا حال ہوا اور مریض کا کیا بنا؟ قینچی بلیڈ اندر تو نہیں چھوڑ دیئے مریض کے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر اپنی جان بچائی کہ ایسا اتفاق کبھی نہیں ہوا۔امداد صاحب سے بھی انھی معاملات پر تبادلہ خیال کیا حاضرین محفل نے۔ تاہم وہ ڈاکٹر نہیں تو اس مشکل سوال سے بچ گئے۔

    اس کےبعد مہمان شاعروں سے کلام سننے کا مرحلہ آیا۔ ہمارا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب اسٹیتھو سکوپ یا کسی سیرپ پر غزل کہیں گے مگر یہاں انھوں نے اپنے پیشے سے وفا نہ کرتے ہوئے غم جاناں و غم دوراں کو ہی موضوع بنایا۔ اشعار انتہائی معیاری اور دل میں اتر جانے والے مگر برا ہو ہمارے حافظے کا کہ وہ دغا دے گیا۔ ترنم کے ساتھ انھوں نے پڑھا تو بے اختیار مظفر وارثی صاحب یاد آ گئے۔ امداد صاحب بھی مہمان تھے۔ ان کا سنانا بھی لازم تھا۔ ان کا کلام بھی بہت  معیاری تھا۔ ان سے ترنم کی فرمائش کی گئی تو انھوں نے سلام کے چند اشعار پڑھے اور خوب داد سمیٹی۔ شعیب صاحب صدر تھے اور صدر کے پاس اختیارات نہ بھی ہوں تو بھی کلام سنانے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ان کا سنانا تو بالکل حق تھا مگر معاملہ تو اس کے بعد بگڑا۔ سلطان حرفی صاحب اتنی غزلیں سن سن کر پک چکے تھے۔ ان کو اپھارہ ہوا اور انھوں نے دو قطعے اور آٹھ اشعار پر مشتمل غزل سنا کر خود کو بشاش کیا۔ انھوں نے دیگر شعرا کی بھی راہ کھول دی۔ اب تو نعیم طاہر اور عرفان خانی کے بھی مزے ہو گئے۔ انھوں نے بھی غزلیں سننے کا پورا پورا حساب لیا۔ خانی صاحب دھان پان سے آدمی ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ شعر بھی ایسے ہی ہلکے پھلکے کہتے ہوں گے مگر ان کی شاعری ان کے صحت کے برعکس خاصی مضبوط ہے۔پھر طاہر نعیم  صاحب نے پڑھا اور پھر ایک دوست نے   فارسی غزل سنا کر داد سمیٹی ۔ یہ تمام شاعر ہیں اور ہمیں ان سے اس کی توقع تھی تاہم اطمینان تھا کہ ہم یہاں اکیلے نہیں ہیں نجم الثاقب ہمارا ساتھ دیں گے مگر ہمارا دل تب ٹوٹا جب  نجم الثاقب صاحب کے اندر سے بھی ایک شاعر برآمد ہوا اور باقی شاعروں نے تو اردو میں اشعار کہے ان کا اندر کے شاعر نے پنجابی کو بھی نہ بخشا۔

    اردو تو اردو ہے پنجابی بھی نہ چھوڑی ہم نے

    بے اختیار ابن نیاز یاد آیا مگر پھر اس خیال پر لاحول پڑھ دی کہ وہ بھی شاعری کرتا ہے۔اب ہم نے بھی اپنے تین چارکالم سنانے کا ارادہ کیا۔ ہم ترنم سے پڑھنے کو بھی تیار تھے۔ سماعتیں سننے والوں کی خراب ہونی تھیں ہمارا کیا تھا مگر عین اس موقع پر خانی صاحب چائے اور دیگر لوازمات لے آئے۔بلاشبہ سب کا کلام بہت اچھا اور معیاری تھا مگر اتنی غزلیں سن کر ہمارا تو ہاضمہ خراب ہونا ہی تھا۔  باقی دوستوں کا تو پیٹ غزلوں سے بھر چکا تھا سو کھانے پینے پر ہمیں نے ہاتھ صاف کیے۔یوں بھی شادی کے بعد اتنے گھنٹے دوستوں کے ساتھ گزارنے پر گھر جا کر کھانا ملنےکے امکانات کافی کم ہوتے ہیں۔ چائے کے بعد کتابوں کا تبادلہ ہوا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ تصاویر بنوا کے ان یادگار لمحوں کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا گیا۔ اسکے بعد اجازت لے کر رخصت ہوئے تو باہر بارش نے استقبال کیا۔ تان سین کے گانے سے بارش ہوتی تھی ہمارے دوستوں کے اشعار نے ہی بارش کا سماں باندھ دیا۔ اللہ سب کو خوش رکھے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔