روپے کی گرتی ہوئی صحت «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • روپے کی گرتی ہوئی صحت

    تحریر: ابنِ ریاض

    مہنگائی کے متعلق  ہماری رائے ہے  کہ یہ سدا بہار چیز ہے۔ہر دور میں رہی ہے۔ بچپن میں بھی ہم نے یہی دیکھا کہ ہر کچھ عرصہ بعد اشیاء کی قیمت  بڑھ جاتی تھی۔ جیسے پتی کا ڈبہ اگر پانچ روپے کا تھا تو دو تین ماہ بعد گئے تو شاید سوا پانچ ہوچکا تھا۔یہ ہم 1980 کی دہائی کے وسط کی بات بتا رہے ہیں جب شاید پندرہ  روپے کی پانچ کلو چینی مل جاتی تھی۔جی وہ زمانہ ہم نے دیکھا ہے بلکہ 1960 کے عشرے میں تو معاملہ اس سے بھی سوا تھا جب جالب کو بیس روپے من آٹا بھی مہنگا لگا کرتا تھا۔ وہ اپنے دکھ  اور تاسف کا اظہار  کچھ یوں کرتے تھے۔

    بیس رہے من آٹا

    اس پر بھی ہے سناٹا

    تاہم 1980 کے دہائی میں معاملہ  بیس روپے  سے  کہیں  بڑھ چکا تھا مگر پھر بھی مہنگائی آج کے دور سے بہت کم تھی ۔ اس زمانے میں ہم تو ظاہر ہے ٹافیاں  لینے  اور کھانے پینے کے چیزوں کے لئے ہی جاتے تھے۔تاہم مہنگائی کا سن سن کر اس کے متعلق بھی ہم سوچتے تھے کہ یہ ٹافی جو آج چار آنے(یعنی پچیس پیسے) کی ہے ایک دن آئے گا جب سو روپے کی ہو گی۔ اس وقت  ہمارےپاس پیسے کتنے ہوں گے کیونکہ باقی چیزیں بھی تو لینی ہوں گی۔ شاید سارا کمرہ ہی پیسوں سے بھر جائے اور ہمیں باہر سونا پڑے۔  جس وقت ہم یہ سوچ رہے تھے شاید وہ قبولیت کی گھڑی ہو گی کیونکہ اب واقعی اتنی  ہی مہنگائی ہو گئی ہے۔ نہ ہم سوچتے نہ  یہ ہوتا۔ ہمیں افسوس ہے کہ  اس مہنگائی کے ذمہ دارہم بھی ہیں۔

     اس زمانے میں ڈالر تیس کے لگ بھگ تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ 1996 میں کرکٹ کا عالمی کپ ہوا تھا تو اسی برس انور مقصودصاحب کا ایک پروگرام ‘ورلڈ گپ 1996 ‘پیش ہوا تھا۔ اس میں انھوں نے معین اختر مرحوم سے پوچھا تھا کہ ڈالر کا کیا مستقبل ہے تو معین اختر مرحوم نے کہا تھا کہ ڈالر کا چہلم ہو جائے گا۔انور صاحب کی حیرت پر معین اختر نے کہا تھا کہ ڈالر چالیس سے اوپر چلا جائے گا۔ چار شادیوں کاتو ہر مسلمان نے سن رکھا ہوتا ہے مگر ڈالر ہمیں چار چہلم دکھاچکا ہےاسے اتفاقاتِ زمانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔اس زمانے میں پاکستانی کرنسی نوٹ بھی دیگر کرنسیوں کے مقابل مضبوط و توانا ہوتے تھے یعنی اس کے مقابل باقی کرنسیاں دیکھنے میں بھی کمزور تھیں اور حقیقت میں بھی۔بھارتی دو روپے ہمارے ایک روپیہ کی برابری کرتے تھے اور جاپانی ین تو روپے کے تین چار مل جاتے تھے۔ہم حیران ہوتے تھے کہ جاپانیوں سے اپنی کرنسی تو مضبوط ہوتی نہیں اللہ جانے اتنی ترقی کیسے کر لی ہے انھوں نے۔  اس زمانے میں ایک پیسہ، پانچ پیسے، دس پیسے۔ پچیس پیسے اور پچاس پیسے کے سکے ہوتے تھے اور بچے جیبوں میں سکےلے کر چلتے تھے تو ان کے ٹکرانے سے ایسے آوازیں آتی تھیں جیسے کسی بیل کو گھنٹی بندھی ہو تو اس کے حرکت کرنے سے آوازیں آتی ہیں۔ سو روپے سے بڑا نوٹ نہیں تھا بلکہ گداگر سکہ  بھی خوشی سے لے لیتے تھے اور روپیہ   ملنےپر تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے تھے۔

    اب صورت حال یہ ہے کہ نئی نسل نے سکہ دیکھا بھی تو پانچ روپے کا۔ ہمارے نوٹ اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ پانچ ہزار کا نوٹ بھی بیس روپے جتنا دکھائی دیتا ہے۔ بات محض صورت تک رہتی  تو  کچھ غم نہ تھا۔حرکتیں  بھی اس کی بیس روپے  جیسی  ہی ہیں۔ بازار میں جاؤ تو پانچ ہزار کا نوٹ خرچ بھی بیس روپے کی طرح ہی ہو جاتا ہے۔اب بھارتی روپیہ سوا دو پاکستانی روپے کا ہو چکا ہے تو ین بھی روپے سے زیادہ مہنگا۔ بلکہ اب تو بنگالی  ٹکا بھی دو روپے کا ہے۔ کسی زمانے میں کم قیمت اور معمولی چیز کو کہا جاتا تھا کہ یہ تو ٹکے کی چیز ہے۔ اب تو اردو محاورہ ہی بدلنا پڑےگا۔

    پاکستان کے ایٹم بم کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے۔ظاہر ہے کہ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی چاہیے تھی جو کوئی ملک بھی دینے کو تیارنہ تھا۔سو پاکستان نے یہ ٹیکنالوجی خفیہ حاصل کی۔مخالف ممالک کی ایجنسیوں کو بھی اس کا اندازہ تھا اور وہ اس کو روکنے کے لئے تیار تھیں  مگر ہوتا یہ تھا کہ جب وہ اطلاعات کی بنیاد پر وہاں پہنچتے تھے تو پاکستانی ماہرین اس مقام سے جا چکے ہوتے تھے۔ مہنگائی کا اور ہمارا بھی یہی تعلق ہے۔ جب ہم بچے تھے تو ہماری پسندیدہ چیزیں سینکڑوں روپے میں دستیاب تھیں ۔جب ہمارے پاس سینکڑوں روپے جمع ہونے شروع ہوئے تو ان کی قیمتیں ہزاروں میں چلی گئیں۔ خود نوکری کی تو پہلی تنخواہ ہی ہزاروں میں تھی۔مگر جب قیمتیں معلوم کی تو اب بات لاکھوں پر چلی گئی۔اور اب یہ حال ہے کہ بات کروڑوں میں جا چکی ہے۔ کسی  کتاب میں ہم نے پڑھا تھا کہ  چور ہمیشہ ٹیکنالوجی سے ایک قدم آگے ہوتے ہیں۔ ان کو قابو کرنے کے لئے ہی ٹیکنالوجی میں جدت لائی جاتی ہے۔ مہنگائی کے متعلق اب  تک کا تجربہ یہی کہتا ہے کہ چور (مہنگائی) ٹیکنالوجی (ہمارے وسائل)سے آگے ہی رہیں گے۔

    مہنگائی کی ایک وجہ تو مقامی ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے اور دوسری اور زیادہ اہم وجہ روپے کی قدر میں کمی ہے کیونکہ ہماری درآمدات زیادہ ہیں۔علاوہ ازیں اپنے اخراجات  قرض کے پیسوں  سے پوراکرنا   اور قرض ادا کرنے کے لئے مزید قرض لینا بھی ہماری قومی عادت ہے۔قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا۔ ہمارا روپیہ بھی ڈالر کا عاشق ہے۔ کچھ ہی دن گھر میں رہتا ہے پھر ڈالر کی گلی (آئی ایم ایف) کے پھیرے لگانا شروع کر دیتا ہے۔اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ڈالر کے نخرے آسمان سے جا لگتے ہیں اور روپیہ وصال کی حسرت میں کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے۔

    روپے کی قدر میں کمی نے ہمیں اتحاد کا درس بھی دیا ہے کہ اگر آپ کمزور ہیں مگر آپ میں اتحاد ہے تو دشمن طاقتور ہو کر بھی منہ کی کھائے گا۔جب ایک سو اڑسٹھ  روپے مل کر ڈالر پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس کو کہیں جائے پناہ ہی نہیں ملتی۔وہ عوامی مقامات سے روپوش ہو کر افغانستان کیے "تورا بورا  ” اور کونوں کھدروں میں بسیرا کرتا ہے۔

    اب تو سونے کے تولے نے بھی ہزاروں کی سینچری مکمل کر  لی ہے۔پچھلے  دو سال میں تو  اس کو پہیے لگ  گئے ہیں۔ 2018 ء میں باون ہزار کا تولہ تھا جو دو سال میں  دوگنا ہو گیا۔اخلاق احمد مرحوم ‘سونے نہ چاندی نہ کوئی محل جانِ من تجھ کو میں دے سکون گا’ گاتے گاتے دنیا  چھوڑ گئے  تاہم ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا  کہ ان کے جانےکے دو عشرے بعد ہر پاکستانی اس گانے کی عملی تفسیر  بن چکا ہو گا۔اب روپے کی ساکھ واپس لینے کا ایک ہی طریقہ ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ ہم ڈالر  اور سونے کی سرپرستی شروع کر دیں یعنی ان کو خریدنا اور جمع کرنا شروع کر دیں کیونکہ کاروبار  میں ہم خداداد  صلاحیتوں کو مالک ہیں اورجس چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ مٹی ہو جاتی ہے۔سونے اور ڈالر کو ہمارے ہاتھ لگنے کی دیر ہے زمین پر واپس نہ آئے تو کہنا۔

     

    ٹیگز: , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔