پاکستان میں گاڑی چلانے کا تجربہ «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • پاکستان میں گاڑی چلانے کا تجربہ

    تحریر: ابنِ ریاض

    سعودی عرب میں ہم گاڑی چلا چکے ہیں اورہمارے قارئین اس کے احوال سے بھی واقف ہیں۔ اب کی بار ہم پاکستان میں بھی اپنا ہنر آزمانے کے متمنی تھے مگر ہمارے پاس گاڑی نہیں تھی۔ ہماری ڈرائیونگ کا حال پڑھ کر ہمیں کوئی اپنی گاڑی دیتا بھی نہیں ہے۔ سو پچھلے سال تو یہ خواہش حسرت ہی رہی مگر اس بار ہماری یہ آرزو پوری ہو گئی۔ ہمارے انکل نے ہمیں اپنی گاڑی چلانے کی پیشکش کی کہ ہم تو چلاتے نہیں ہماری گاڑی چلالو۔ گاڑی بھی چل جائے گی اور تم لوگوں کو بھی آںے جانے میں آسانی ہو گی۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ضرور چلائیں گے۔ کہنے لگے کہ ابھی لے جائو۔ ہم پریشان ہو گئے ۔سمجھ میں نہ آیا  ہماری ڈرائیونگ پر اتنا اعتبار ہے یا گاڑی سے جان چھڑوانا مقصود ہے مگر دل کو تسلی دی کہ انھوں نے ہماری ڈرائیونگ ابھی دیکھی ہی کہاں ہے۔

    سعودی عرب میں گاڑی بائیں ہاتھ پر چلائی جاتی ہے جبکہ یہاں دائیں ہاتھ پر۔یعنی کہ سب کچھ الٹا۔ وہاں ہم دائیں ہاتھ سے گیئر لگاتے تھے یہاں یہ کام بائیں ہاتھ سے کرنا تھا۔ اُدھر سمت کی نشان دہی کرنے والا ڈنڈا بائیں ہاتھ تھا یہاں سیدھے ہاتھ۔ مزید براں دوسری گاڑی کے گئیر کلچ کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے بندہ اپنے نمبر کی ہی دوسری عینک لگا لے۔ایک دو دن سر درد نہیں جاتا۔

    ہم نے انکل سے کہا کہ ابھی ہمیں تھوڑی سی مشق کرنے دیں چند دن بعد ہم لے جائیں گے۔ ہمارے سسرال میں گاڑی ہے وہاں ہم چلائیں گے اور اس کے بعد  یہ لے جائیں گے۔ سسرال والے بیٹی دے دیتے ہیں تو گاڑی دینا کیا مسئلہ ہے۔ سسرال میں گھر کے گرد اتنا رش بھی نہیں سو سکون والی سڑکوں پر ہم نے کچھ گاڑی چلائی مگر وہ کچھ اتنی اچھی نہیں تھی۔ گئیر لگانے میں مسئلہ ہو جاتا تھا اور پھر جب ہم مڑتے ہوئے انڈیکیٹر لگاتے تھے تو اس کی بجائے شیشے کے وائپر چلنا شروع ہو جاتے تھے اور ہم اچھے خاصے الجھ جاتے تھے۔ بس ایسے ہی مشق ہوئی ہماری اور ہم نے سوچا کہ بڑی اور اہم شاہراؤں پر تو یہ بہت سنگین غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔

    سسرال سے واپس آئے تو رمضان شروع ہو گیا اور مزید کسی مشق کا موقع ہی نہ ملا۔یوں بھی ہمارے پاس پاکستان میں وقت کم ہے تو سوچا کہ اللہ کا نام لے کرلے آتے ہیں۔ بھلا خشکی پر رہ کر بھی کبھی کسی نے تیراکی سیکھی ہے۔ دو دن قبل ہم نے فون کیا کہ ہم کچھ دیر میں آ کر گاڑی لے جائیں گے۔ہم اپنے بھائی کو لے کر پی ڈبلیو ڈی سے خیابانِ سر سید گئے۔ یہ کوئی بیس پچیس کلومیٹر کا رستہ ہو گا۔ ہم وہاں پہنچے ، کچھ دیر گپ شپ کی اور پھر گاڑی کی چابی مانگی۔ ہمیں چابیوں کا گچھا پکڑا دیا گیا۔ ہم نے کہا کہ گھر کی چابی رہنے دیں، گاڑی کی چابی کافی ہے۔ کہنے لگے یہ سب گاڑی کی چابیاں ہیں۔ ایک گاڑی کو چوری سے بچانے کے لئے تالے کی چابی، ایک گئیر کے گرد پڑے تالے کی چابی، ایک ڈگی کی چابی اور ایک گاڑی سٹارٹ کرنے کی چابی۔ کمال ہی ہو گیا۔ سعودی عرب میں تو ہم ایک ہی چابی سے کام چلا لیتے تھے۔واقعی بعض معاملات میں پاکستان زیادہ ترقی یافتہ ہے۔

    گاڑی میں ہم بیٹھے۔ شیشے سیٹ کیے۔ گئیر لگایا۔وہ نرم تھا۔ خوشی ہوئی کہ ہمارا بایاں بازو ویسے بھی کمزور ہے زیادہ زور لگانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔ایمرجنسی کا بٹن دیکھا کہ ہمارے لئے سب سے ضروری وہی بٹن ہوتا ہے۔پٹرول کی سوئی بھی نصف ٹینکی کی نشان دہی کر رہی تھی ۔ علم ہوا کہ سب سوئیاں بالکل ٹھیک ہیں۔ سب اطمینان کرنے کے بعد گاڑی گیراج سے باہر نکالی اور جب موڑنے لگے تو ہمیں دانتوں پسینے آںے لگے۔ سعودی عرب میں تو گاڑی میں پاور سٹیرنگ تھا اور ہم بس اشارہ کرتے اور گاڑی اس جانب مڑ جاتی۔یہاں دونوں ہاتھوں سے زور لگا کرگاڑی کا رخ موڑتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے بھینس کو پانی سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ بہر حال ہم نے گاڑی نکالی اور آہستہ آہستہ گلیوں میں سے نکالتے ہوئے بڑی شاہراہ پر پہنچے۔ شاہراہ پر ٹرکوں کی بھیڑ تھی اور کھڈوں کا ڈھیر۔ ہم  گاڑی کو کسی کھڈ کی زد میں آںے سے بچانے پر دھیان دیتے رہے۔ گاڑی چلانے کا تو پہلے بھی مسئلہ نہیں تھا کہ ہماری ڈرائیونگ دیکھ کر دوسری گاڑیوں والے از خود ہی راستہ دے دیتے ہیں۔ دعاؤں کی بھی ہمیں کمی نہیں رہتی کہ ہمارے ساتھ بیٹھنے والے از خود ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔اس کا ثواب بھی یقینًا ہمیں ہی پہنچتا ہے۔  ابھی ہم آدھے رستے میں ہی تھے کہ بھائی نے شگوفہ چھوڑا کہ یہ تو پتہ کیا ہی نہیں کہ گاڑی پٹرول پر ہے کہ سی این جی پر کیونکہ سی این جی محض ایک پوائنٹ بتا رہی تھی۔ ہم ہائی وے پر تھے اور پریشان ہونا فطری تھا۔ بھائی سے فون کروایا تو انھوں نے کہا کہ گاڑی پٹرول پر ہے سی این جی کی فکر نہ کرو۔ یہ سن کر ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ تھوڑی دورگئے تھے تو اچانک خیال آیا کہ ہم نے ٹائروں کی ہوا تو دیکھی نہیں نہ ہی مرمت کرنے والے آلات کا علم ہے کہ موجود ہیں کہ نہیں۔ اس کا ذکر ہم نے نہیں کیا۔ بس اللہ کا نام لے کر چلتے رہے۔ کرم ہوتا گیا اور ہم بخیر و عافیت گھر پہنچ گئے۔ اس سے ہمارے اعتماد میں کچھ اضافہ ہوا اور اگلے روزہم گاڑی لے کر ‘سینٹورس ‘چلے گئے۔ راستے میں فیض آباد سے آگے پولیس چوکی آئی تو خیال آیا کہ ہمارے پاس تو لائسنس ہی نہیں۔ کچھ پریشانی ہوئی مگر پھر خیال آیا کہ سعودی لائسنس سے ہی کام چلا لیں گے اور انھیں عربی کے کچھ جملے سنا دیں گے تو وہ اللہ لوگ سمجھ کر جانے دیں گے مگر اللہ کا کرم یہ ہوا کہ پولیس والوں نے روکا ہی نہیں اور یوں ہم سستے میں بلکہ  مفت   میں چھوٹ گئے۔

    ایک روز  ہمیں ٹیکسلا  جانا تھا۔ راستے میں  ایک ٹول پلازہ آتا ہے۔ وہاں ہمیں   تیس روپے ٹول ٹیکس  دینا تھا۔ ہم نے  بیگم سے کہا  کہ  یہ لو والٹ اور  تیس روپے نکال دو تاکہ ٹول پلازاہ پر زیادہ وقت صرف نہ ہو۔ بیگم نے نکال کر رکھ دیئے۔ جب ٹول پلازہ پہنچے تو ہم نے  بیگم سے  پیسے مانگے تو اس نے کہا کہ یہ بیس ہیں، ہم نے  کہا کوئی مضائقہ نہیں۔ ڈیش بورڈپر سکے پڑے ہیں وہ دس کے قریب ہیں۔ ہم نے  ٹول والے کو رقم پکڑائی تو  وہ ہمیں دیکھنے لگا۔ ہم نے کہا کہ  بھائی  صبر کرو، ابھی دس مزید دیتا ہوں تو کہنے لگا کہ  یہ تو پاکستان میں نہیں چلتے۔ ہم نے اس کی بات سن کر  رقم  کی جانب دیکھا تو وہ سعودی ریال تھے۔ ہم نے اس کی شرافت  وسادگی پر  اس کو  داد دی اور پھر تیس روپے دے کر جانبِ منزل روانہ ہوئے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    6 تبصرے برائے “پاکستان میں گاڑی چلانے کا تجربہ”


    1. Ayesha khan
      بتاریخ مارچ 31st, 2018
      بوقت 3:31 شام

      Hahaha Kamal ki tehreer,wiper chalna or soudi riyal den hahaha


    2. ابنِ ریاض
      بتاریخ مارچ 31st, 2018
      بوقت 3:54 شام

      دیکھ لیں ہماری حالت


    3. Areeba
      بتاریخ جولائی 27th, 2018
      بوقت 10:11 صبح

      hahaha hmesha ki trha nihayat dilchasp lateef coloumn


    4. ابنِ ریاض
      بتاریخ جولائی 27th, 2018
      بوقت 1:35 شام

      bht shukrya


    5. کوثر بیگ
      بتاریخ جولائی 28th, 2018
      بوقت 1:28 صبح

      واہ بہت عمدہ روداد لکھی جسے پڑھکر مسکراہٹ بے اختیار لبوں پر آتی جاتی رہی
      اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ


    6. ابنِ ریاض
      بتاریخ جولائی 28th, 2018
      بوقت 8:59 صبح

      جزاک اللہ ۔۔۔۔از حد مشکور ہوں

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔