مستقبل گانوں اور فلموں کا ہے «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • مستقبل گانوں اور فلموں کا ہے

    تحریر: ابنِ ریاض

    کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ کبھی ہم بھی اس مقولے کے قائل تھے مگر اب گانے سنتے ہیں تو  محسوس ہوتا ہے کہ یہ سزا ہے۔ سمجھ میں بس یہ نہیں آتا کہ یہ سزا سامعین کو ملی ہے  یا گلوکار کو۔ پھر ہمارے ایک دوست نے جو جدید موسیقی کے دلدادہ ہیں بتایا کہ گلوکار کی اچھل کود اس کی صحت کے لئے ضروری ہے۔ ہم چونکہ موسیقی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تو ہم نے ان کی بات کو تسلیم کر لیا۔

    ایک دور تھا جب گانے صرف فلموں اور موسیقی کے پروگراموں میں ہوا کرتے تھے۔ ڈراموں میں کہیں کہیں پس پردہ موسیقی سے کام چلا لیا جاتا تھا۔ کسی کسی اشتہار میں بھی موسیقی و گانے کے بولوں کا تڑکا ہوتاتھا مگر خال خال ہی ۔اسٹیٹ لائف کا  ‘اے خدا میرے ابو سلامت رہیں’ ، نورس کا ‘بھول نہ جانا پھر پاپا’ اور  عارفہ صدیقی کا ‘میری مٹھی میں بند’ ہمیں اب تک یاد  ہیں۔

    وقت کا پہیہ  گھومتا رہا  اور گردشِ لیل و نہار  میں موسیقی کے عروج کے دن آگئے۔ اب کوئی ڈرامہ ایسا نہیں کہ جس کے ساتھ اس کا گانا نہ ہو۔ اشتہارات میں توویسے ہی گانا نہ ہو تو اس کی ٹھیک سے تشہیر نہیں ہو پاتی۔ بات صرف ڈراموں ،اشتہارات  یا فنون لطیفہ تک ہی رہتی تو  کچھ ایسی اہم بات نہ ہوتی۔ اب تو ہر شعبے میں  ہی   موسیقی در آئی ہے۔آج کل کرکٹ ٹیم کو بھی عالمی کپ میں گانوں کے سائے تلے رخصت کیا جاتاہے۔پی ایس ایل کی ہر ٹیم کا ہی اپنا گانا ہے اور ہر برس پی ایس ایل کا نیا سرکاری گانا ہوتا ہے۔

    اب تو سیاسی میدان میں بھی مقابلہ گانوں سے کیا جاتاہے اور پارٹیاں ‘جدوں آئے گا عمران’، ‘میاں دے نعرے وجن گے’ اور ‘بھٹو کی بیٹی آئی تھی’ جیسے نعروں سے اپنے کارکنوں کو گرماتے ہیں۔  صورت حال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ دفاعی ادارے بھی اپنا پیغام  گانوں سے ہی دینے لگے۔ہر اہم موقع پر گانا ریلیز کرنا اپا فرض سمجھتے ہیں آئی ایس پی آر والے بھی اب تو جنگیں ترانوں سے لڑتے ہیں ۔اب بھارت کو کشمیر سے نکالنے کے لئے  بھی گانا  مارکیٹ میں آ گیا ہے جسے سن کر بھارتی فوج  اورحکومت شرم سے پانی پانی ہو جائے گی اور کشمیر کو پہلی فرصت میں آزاد  کر دے گی۔کسے یاد نہیں کہ  1965 کی جنگ میں بھی ترانوں کا اہم کردار تھا۔ ہمارے  جوانوں کے ساتھ ساتھ   ہمارے شعراء ،موسیقاراور گلوکار بھی پیش پیش رہے اور ایسے ایسے نغمے   تشکیل دیے جنھوں نے  پوری قوم میں جوش و جذبہ بھر دیا  اور قوم  دشمن کے سامنے  سیسہ  پلائی ہوئی دیوار  بن  گئی۔ 1971ءمیں ہمارےشاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں  نے گانوں اور ترانوں  پر اتنا زور نہیں دیا تو نتیجہ بھی حسب منشاء نہیں رہا۔

    بقول افضل ندیم چن کے ‘مختیاریا  معاملہ مزید ودھ  گیا’ کہ اب تو حمد و نعت بھی اکثر موسیقی کے ساتھ اور گانوں کی طرز پر ہو رہی ہیں۔اگر ایسے ہی ترقی ہوتی رہی تو بعید نہیں کہ کسی روز کوئی مرد مومن نماز بھی گا دے۔

    موسیقی و گلوکاری اسی رفتار سے ترقی کرتی رہی تو وہ وقت نہیں جب ملک میں بات چیت بھی گانوں کی زبان میں ہوگی۔ اس کی کچھ مثالیں ہمارے ذہن میں آئی ہیں باقی ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔

    ڈاکٹر:  ہو گیا ہے تجھ کو تو بخار سنجاں

    اگر کرونا ہوا تو

    تیرے اعصابوں پر چھائی ہے اک صورت متوالی سی

    نازک سی شرمیلی سی معصوم سی بھولی بھالی سی

     رہتی ہے وہ اندر کہیں اتا پتہ معلوم نہیں کو کو کورونا

    مریض: تیرے کلینک سے دور، چلے ہو کے مجبور ہمیں یاد نہ رکھنا

    پاکستان آئی ایم ایف  سے: تیرے در پہ صنم چلے آئے

    تو نہ آیا تو ہم چلے آئے

    قدموں میں تیرے جینا مرنا اب دور یہاں سے جانا کیا

    خودمختاری سے حکومت کو کیا مطلب روپے کا نگر میں ٹھانہ کیا

    حکومت سے عوام: اے حکومت ہمیں برباد نہ کر

    لاک ڈاؤن کے دنوں کی نصیحت : شام سے پہلے آنا

    آن لائن کلاس کے دوران کبھی استاد کبھی طالب علم:  میں تیرے اجنبی شہر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے، مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے

    بجلی کا بل آنے پر: بلّا  ٹھہر جا  یار نوں زندہ رہن دے

    کالا رنگ ہو تو:

    سانول سلونی سی محبوبہ

    اور ہم کالے ہیں تو کیا دل والے ہیں

    شادی :

    گوری کے سر پہ سج کے سہرے کے پھول کہیں گے

    موسیقی میں ہمارا ہمسایہ ملک  تو ہم سے بھی دو قدم  آگے ہے۔ وہاں تو   گانا  عبادت  کی طرح ہے۔فلمی  صنعت ان کی ویسی ہی پوری دنیا میں پھیلی ہوئی۔سو  ان کے ہاں تو   اداکاری و موسیقی کو پہلے ہی وہ مقام حاصل ہے جس مقام کے پاکستانی فنون لطیفہ سے متعلق لوگ متمنی ہیں۔بھارت یوں تو امن پسند ملک ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ چینیوں کی دہشت گردی کے باوجود  بھارتی کس طرح  مسئلے کے پر امن حل کے لئے کوشاں ہیں ۔پچھلے سال پاکستان میں بھی ان کا جہاز اترا  اور ان کا پائلٹ پاکستانی  میزبانی سے لطف اندوز ہوتا  رہا۔تا ہم ان کی فلمیں  اور موسیقی اس کے برعکس ہیں۔ فلمو ں میں ان کے کرنل و جنرل اداکار دوسرے ملکوں کا بھرکس نکال دیتے ہیں۔ پاکستان تو ان کا خاص نشانہ  ہوتا ہے۔ ہماری صنعت چونکہ  ابھی اتنی مضبوط نہیں تو ہم  بدقسمتی سے انھیں انھی کی زبان میں جواب نہیں د ے پاتے۔

    ترقی کرتے کرتے ایک وقت  ایسا بھی آ سکتا ہے جب ہمارے  ملک میں بھی  فلم و موسیقی کا ڈنکا بج رہا ہو گا۔ کھلاڑی وزیر اعظم  ہو سکتا ہے تو گلوکار یا موسیقی کار کیوں نہیں؟   صبح صبح ہمہ  رنگی قمیص اور چوڑی دار شلوار  پہن  کر  اور ہاتھ میں چمٹا  لے کر  ریاض کیا کرے گا -۔ہمارے فنکاروں کی بجائے ہماری فلمیں  برآمد ہوں گی۔ جدید دور میں جنگیں بھی جدید ہو گئی ہیں۔   جیسے اب لڑائی  جنگ کے میدان میں کم اور دیگر  میدانوں میں زیادہ ہوتی ہے جیسے معاشی میدان میں۔ صنعتی میدان میں اور کھیل کے میدان میں۔ تب یہی لڑائی فلمی و موسیقی کے میدانوں میں  ہوا کرے گی۔

    چشم تصور سےذرا وہ منظر ملاحظہ کیجیے  کہ ایک فلم میں بھارت نے  اجے دیوگن اور اکشے کمار جیسے کرنل بھیج کر پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپ  ختم کر دئیے اور  سرحدی علاقوں پر بھارتی پرچم لہرادیا۔پاکستان میں  بھارتی فلم  وں پر پابندی  تھی مگر   انٹرنیٹ کے ذریعے پاکستانیوں کو بھارت کی اس مکروہ سازش کا علم ہوا ۔پاکستانی عوام’حکومت  اور تمام ادارے ایک صفحے پر ہو گئے اور فیصلہ کیا گیا کہ بھارت کو اس کی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔پاکستا ن کے معروف فلمساز کوک یہ فریضہ سونپا   جاتا ہے کہ وہ  اس حرکت کا اینٹ  کا جواب پتھر  سے دے۔ فلمساز ‘  روید کامد’  جیسے محب وطن سے کہانی لکھوائے گا۔ ہر اداکار کی خواہش ہو گی کہ اس فلم میں اسے کردار ملے حتٰی کہ اداکار بلا معاوضہ  کام کرنے پر بھی رضامند ہوں گے تاہم قرعہ فال سامر وجاہت ، احد مرتضٰی  ‘ظاہر جودھی جیسے  جیالوں کا نکلے گا۔فلم کے ملی نغمے  خوش کن  موسیقی اور نخرِ سالم  ، ملی   سفر  ‘ ظاہر جاہ، صحیفہ سیانی اور  محسنہ جاوید  کی مدھر آوازوں میں ہمارے غازیوں کا  حوصلہ بڑھائیں گی۔ فلم میں ہمارے کرنل و جوان نہ صرف  اپنے علاقے واگزار کروائیں گے بلکہ بھارتی علاقوں میں بھی پاکستانی پرچم لہرائیں گے۔ہمارے جوان تو پورے بھارت  میں ہی پرچم لہرانے کے درپے ہوں گے مگر  فلمساز انھیں اجازت نہیں دے گا کیونکہ  ایسی صورت میں  بھارت مزید  حربی فلمیں  بنانے سے  محروم  ہو جائے گا جس  سے ہماری فلمی و موسیقی  کی صنعت کو بھی ضرب لگ سکتی ہے۔ تاہم  جوان واپسی سے پہلے فلمساز سے وعدہ لے لیں گے کہ انھیں  نشانِ حیدر سے نوازا جائے۔

     

    ٹیگز: , , , , , , , , ,

    

    ایک تبصرہ برائے “مستقبل گانوں اور فلموں کا ہے”


    1. ابنِ ریاض
      بتاریخ جون 2nd, 2021
      بوقت 10:50 صبح

      بہت شکریہ

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔