ڈاکٹر عافیہ صدیقی۔ ماہِ مارچ خوشی کے ساتھ تلخی بھی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی۔ ماہِ مارچ خوشی کے ساتھ تلخی بھی

    تحریر: ابنِ نیاز

    ماہِ مارچ ایک طرف پاکستان کے پاکستانیوں کے لیے جہاں خوشی کا مہینہ ہے کہ اس میں ان کو ایک آزاد وطن کا حصول کے لئے جدوجہد کاوعدہ کیا گیا تھا تو دوسری طرف اس ماہ میں آج سے پندرہ سال پہلے ایک شدید تکلیف کا آغاز ہوا تھا جس کے اثرات تو کیا وہ تکلیف ، وہ زخم آج ناسور بن کر ہمارے جسم میں ، ہم پاکستانیوں کی روحوں میں جم گیا ہے۔ مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان کے لیے ایک نوید لے کرآتا ہے۔ ایک عہد کے تجدید کی نوید۔ لیکن پندرہ سال پرانا مسلہ ایک ایسا مسلہ ہے جو پاکستانیوں کےلیے، محب وطن پاکستانیوں کے لیے مسلہ کشمیر بن گیا ہے۔ مسلہ فلسطین بن گیا ہے۔ ۲ مارچ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی پیدائش کا دن ہے۔ ۸ مارچ عورتوں کے حقوق کا عالمی دن۔۔ 23مارچ کو ہم پاکستان سے 1940 میں کیے گئے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ لیکن مارچ ہی کی ۰۳ تاریخ وہ تاریک دن جب ڈاکٹر عافیہ کو کراچی سے اس کے تین معصوم بچوں سمیت اغوا کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ بچوں کی عمریں ا س وقت ایک ماہ سے چار سال تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ذہین۔ محنتی اور باعمل مسلمان خاتون ہیں اور تھیں۔ یہی جرمِ عظیم ہے آج کی انسانی حقوق کی دلدادہ کہلوانے والی نام نہاد آزاد دنیا میں ۔
    سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا قصور ریمنڈ ڈیوس سے زیادہ سنگین تھا۔ 2003 میں عافیہ صدیقی کو امریکی اداروں نے القاعدہ کی پیغام رسان قرار دیا۔ نائن الیون کی مالی معاونت میں بھی ان کا نام آیا۔ ان پر دہشت گردی سے متعلقہ الزامات کی فہرست طویل تھی۔ لیکن ان پر مقدمہ صرف بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں چلایا گیا۔ کیا امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے کچھ حقائق چھپانا چاہتا تھا۔ یقینا ایسا ہی تھا۔ ورنہ عمر قید کی سزا بھی چودہ سال میں مکمل ہو جاتی ہے۔ آج پندرہ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن ان سزا میں کمی ہونے کی بجائے، روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ۸ مارچ کو عورتوں کے حقوق کا عالمی دن منایاجاتا ہے۔ لیکن شاید ڈاکٹر عافیہ صدیقی وہ واحد خاتون ہوں گی جن کا ہر حق ضبط کیا گیا ہے۔ امریکہ نے بزعم خود دنیا میں بڑے بڑے جرم کرائے۔ اس کے کرائے کے ٹٹوﺅں نے دنیا بھر میں اودھم مچا کر رکھا ہوا ہے لیکن مجال ہے جو کبھی کسی ملک نے ان کے جرم کو للکارتے ہوئے اس کو اپنے وطن میں گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا ہو۔
    اس کی سب سے بڑی مثال کلبھوشن یادیو کی ہے جو سینکڑوں دستاویزات اور ثبوت کے ساتھ بلوچستان سے گرفتار ہوا۔ انڈیا کو تو خارش تو ہوئی ہی، امریکہ ، ایران اور اسرائیل کو سب سے زیادہ تکلیف ہوئی۔ کیونکہ ان کا آپس کا گٹھ جوڑ سامنے آتا تھا۔لیکن کلبھوشن کو آزاد کروانے میں سب سے زیادہ آواز ان بقیہ ممالک نے اٹھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر ظلم و ستم کیا جا رہا ہے، اس کو ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب کلبھوشن کو میڈیا کے سامنے لایا گیا، اس نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور تمام دنیا نے دیکھا کہ وہ شاید اس وقت سے زیادہ تر و تازہ لگ رہا تھا جب اس کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز کسی کو اگر گرفتار کرتی بھی ہیں تو ان مجرموں کو حالات خود ہی اس نہج پر لے آتے ہیں کہ وہ چوں چراں کیے بغیر ہی اپنا قصور، سب جرم مان لیتے ہیں۔ لیکن افسوس، صد افسوس ہماری ڈاکٹر عافیہ صدیقہ کو ہر ناکردہ گناہ کی سزا ملی۔ جو بگرم ایئربیس پر حملہ نہیں کیا گیا تھا، اس کی سزا۔ سب سے سخت سزا کسی کے قاتل کو ہوتی ہے ، موت کی سزا۔ اب اسلامی سزائیں تو وہاں لاگو ہیں نہیں کہ زنا، چوری، شراب وغیرہ کی سزا کوڑے ، سنگساری اور رجم کی صورت میں ملے۔ اس لیے وہاں یا تو قید بامشقت ہے یا موت کی کرسی پر ۔
    کیا عافیہ صدیقی کا جرم اتنا بڑا تھا؟ ہاں۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے امریکہ میں ہی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ لیکن مستقل طور پر وہاں ان امریکیوں کی خدمت کرنے سے مجبوری ظاہر کی تھی۔کیونکہ انھوں نے امریکہ میں ڈگریاں مفت میں حاصل نہیں کی تھیں۔ اپنے ذاتی اخراجات کیے تھے۔ امریکہ نے میرٹ پر ان کو اپنے طبی تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا تھا۔ ان پر کوئی احسان نہیں کیا تھا۔ لیکن امریکہ تو پھر امریکہ ہے۔ کبھی نہیں چاہتا کہ اس کی ٹانگ نیچی ہو۔ ہمیشہ اوپر ہی رکھنا چاہتا ہے۔اسی وجہ سے اس نے عافیہ صدیقی کو گھیر لیا۔ جب وہ آسانی سے ان کے قابو میں نہ آئیں تو پھر ڈالروں کی بارش کی۔ اس بارش میں بہت سے اس وقت کے حکام بالا کو بھگویا اور اس بھیگے جسم میں ڈالروں کی محبت میں اپنے وطن کی عزت غیروں کو بیچ ڈالی۔
    جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ مارچ کا مہینہ اگر پاکستان کے لیے خوشیوں بھرا ہے تو اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے بہت تلخیاں بھرا ہے۔ ۲ مارچ کو دنیا بھر میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ وطن کی اس بیٹی کو اپنے وطن میں واپس لائیں گے۔گذشتہ پندرہ سالوں سے یہ عہد دہرایاجاتا ہے۔ جنرل ریٹائرڈ مشرف کی جن چند پالیسیوں سے میرا اختلاف رہا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ امریکہ کے کہنے پر اپنے وطن کی بیٹی ان کے حوالے کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ ماضی میں ایمل کانسی، یوسف رمزی اور دیگر بہت سے افراد امریکہ کے حوالے کیے گئے۔ بھلے انھوں نے جرم کیا ہو، تو کیا ان جرائم کی سزا پاکستان میں ممکن نہیں تھی؟ یقینا تھی، لیکن اپنے نام نہاد آقاﺅں کو خوش بھی تو کرنا تھا۔ یہاں پاکستان میں تو حکومت بھی امریکہ کی آشیر باد سے بنتی ہے۔ ایسے میں جب یہ ڈر لگا ہو کہ حکومت اڑنے والی ہے تو پھر امریکہ کچھ بھی منوا سکتا ہے۔ منوایا تھا نا جب ریمنڈ ڈیوس کو باوجود دو افراد کو قتل کرنے کے انتہائی آسانی سے امریکہ کو واپس کر دیا گیا۔ حالانکہ اس پر مقدمہ پاکستان میں چلنا تھا۔ اور صرف قتل کا مقدمہ ہی نہیں، بلکہ وہ سی آئی اے کا ایجنٹ بھی تھا، تو جاسوسی کا مقدمہ بھی ضروری تھا۔ لیکن تھلے لگی سرکار نے سرینڈر کیا اور ۔۔۔
    23مارچ کو یومِ پاکستان منایا جاتا ہے اور اسی تاریخ کو 1998 میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پرائیڈ آف پاکستان کا ایوارڈ ملا تھا۔تو کیا ایسی شخصیت کو پھر دشمنوں کو حوالہ کر دیا جاتا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں دو جمہوری حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملہ میں کچھ بھی نہ کر سکیں۔ کیونکہ وہ کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ امریکہ ہر دوسرے دن ہم سے ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب تو ٹرمپ صاحب کے پر کچھ زیادہ مضبوطی سے نکل آئے ہیں اور آئے دن پاکستان پر مختلف حوالوں سے دباﺅ ڈالتا رہتا ہے۔ ابھی تازہ ترین خبر کے مطابق اس نے پاکستان کے سات اداروں پر پابندیاں لگا دی ہیں اور بہانہ یہ بنایا ہے کہ وہ نیوکلیائی تجارت میں حصہ دار ہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ تمھیں کیا تکلیف ہے۔ اگر وہ تجارت کرتے بھی ہیں تو پاکستان کے لیے کرتے ہیں۔ تم اسرائیل کو سب کچھ مہیا کرو، تم اپنے اتحادی ممالک کو ہر قسم کی ایٹمی ٹیکنالوجی دو تو کوئی مسلہ نہیں اور کوئی ملک صرف اپنے دفاع کے لیے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرے تو آگ لگ جاتی ہے۔
    3مارچ آنے والا ہے۔ وہ سیاہ دن جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا۔ خدارا، جمہوریت کے نام کا جاپ کرنے والو، اپنے وطن کی بیٹی ہے۔ اس کو واپس لاﺅ، اس کو انسانی حقوق کے تحت واپس لاﺅ۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرو اور اس سے کہو کہ پندرہ سال بہت ہوتے ہیں۔ بہت ظلم ہو گیا۔ ان کے وطن کی بیٹی ہے اب مزید امریکہ میں قید نہیں رہے گی۔ پلیز اسے پاکستان کے حوالے کرو۔بس۔۔ اور اس کے بعد کوئی بھی فرد امریکہ کو نہیں دیا جائے گا۔ اپنے اللہ سے ہر سیاستدان یہ عہد کرے، کہ ڈرے گا تو صرف خدا سے۔۔

    ٹیگز: , , , ,

    

    ایک تبصرہ برائے “ڈاکٹر عافیہ صدیقی۔ ماہِ مارچ خوشی کے ساتھ تلخی بھی”


    1. Muhammad irshad
      بتاریخ اپریل 6th, 2018
      بوقت 4:29 شام

      heart rending

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔