انٹرویو ایسے ہی ہوتے ہیں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • انٹرویو ایسے ہی ہوتے ہیں

    تحریر : ابنِ ریاض

    بچپن میں ہم نے معین اختر مرحوم کو لوگوں کے انٹرویو کرتے دیکھ کر خواہش کی تھی کہ کبھی ہمارا بھی انتڑویو ہو۔ اتفاق سے وہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ تقدیر نے ہمیں انجنیئرنگ کے شعبے میں ڈال دیا۔ڈگری کرتے ہی انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ہنوز جاری ہے۔ ابتدائی انٹرویوز نوکری سے متعلق تھے۔ ان میں بھی ہمارا چٹا کھٹا ہی پوچھا جاتا تھا اور ہم اعزازی نمبروں سے فیل ہوتے تھے۔
    لکھنے کے شعبے میں ہم جب داخل ہوئے تو یہاں فیس بک کا دور دورہ ہے اور اس میں گروپ بنانے کی روایت ہے۔ گروپس میں مختلف سرگرمیاں اراکین گروپ کو مشغول کرنے کے لئے رکھی جاتی ہیں اور انھی میں ایک اراکین کا انٹریو بھی ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمیں انکار کرنا نہیں آتا۔ نتیجتاً ہر کچھ عرصے بعد ہمیں انٹرویو دینا پڑتا ہے اور اب تو ہمیں سوال بھی یاد ہو گئے ہیں انٹرویوز کے۔ ہم نے شاید اتنی تحریریں نہیں لکھیں جتنے انٹرویو دے ڈالے ہیں۔
    اس سلسلے میں ہمارا جدید ترین انٹرویو ‘شبِ چراغ’ نامی گروپ میں ہوا۔ چراغِ شب سن رکھا تھا ہم نے اور اس سے ملکیت تانیث کی محسوس ہوتی تھی یعنی رات کا چراغ۔ اس گروپ نے تذکیر کو بھی ملکیت کا حق بخشا اور نام بدل کر ‘چراغ کی شب’ رکھ دیا۔ ہمیں یہ نام اچھا اور برمحل لگتا ہے بلکل ایسے جیسے ‘نور بھری کا شوہر’ کہنے کی روایت ہو اور بدل کر ‘غلام رسول کی زوجہ’ پکارنا شروع کر دیا جائے۔ اردو اصطلاحات میں جدت بھی وقت کی ضرورت ہے۔
    ‘انٹرویو ایسے بھی ہوتے ہیں’ تحریر ہم نے کچھ برس قبل لکھی تھی مگر پچھلے دنوں مختلف گروپس میں دوبارہ لگائی۔ ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ اس کا ایسا حوصلہ افزا رد عمل ملے گا۔ ہمیں کہا گیا کہ آپ کو تو ماشاء اللہ پہلے ہی انٹرویو کا تجربہ ہے تو مزید ایک انٹرویو دے دیں۔یوں بھی سی وی میں ہر تین سے چھ ماہ بعد کچھ نیا ضرور ڈالنا چاہیے تا کہ عوام آپ سے متاثر ہو سکے۔ انکار کرنا یوں بھی نہیں آتا اور فرمائش کرنے  والی بھی استانی ہوں تو معاملہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ قصہ مختصر اتوار والے روز ہم سے وقت مانگا گیا اور ہماری مصروفیت کے حساب سے پوسٹ لگانے کا کہا گیا۔ ہم نے کہا کہ بے شک پہلے لگا دیں ہم جواب فارغ ہو کر دے دیں گے۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ ہم سوالوں کے جواب گوگل سے ڈھونڈ سکیں  مگر میزبانوں نے ہمیں یہ کہہ کر چپ کروا دیاکہ اس طرح اراکین کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے سو جوں ہی آپ آئیں گے تبھی انٹرویو کا آغاز ہو گا۔ نقل روکنے کی ایسی کوشش ہمارے سندھ اور بلوچستان کے بورڈ والے کر لیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
    ہمارا انٹرویو عدیل سلمان  نے پوسٹ کیا۔ اس سے قبل جتنے انٹرویو ہماری نظروں سے گزرے وہ سب لڑکیوں نے پوسٹ کیے تھے۔ عدیل سلمان  لاکھ اچھے ہوں مگر انٹرویو   کرتی خواتین  ہی اچھی لگتی ہیں ہمیں بالخصوص اگر انٹرویو   ہمارا ہو۔ ہماری مرتبہ شاید وقت پر کوئی لڑکی تیار نہ ہو سکی ہو گی۔ ممکن ہے آن لائن  انٹرویو کے لئے بھی نیا سوٹ ،میچنگ جیولری جوتے اور ہینڈ بیگ کی ضرورت پڑتی ہو ۔ اتوار یوں بھی گھریلو لڑکیوں کے لئے مصروف دن ہوتا ہے ۔ابتدائی کچھ منٹ میں ہی ہم نے دیکھ لیا کہ وہ سب لوگ جنھوں نے کبھی ہماری تحریر نہیں پڑھی انٹرویو پوسٹ پر ایسے موجود تھے جیسے محبوبہ کے ولیمے پر کھانا کھلتے وقت سب عاشق موجود ہوتے ہیں۔ انھیں نے یہاں بھی یہ روایت برقرار رکھی کہ سب نے سلام کیا اور نیک تمنائیں دیں جیسے محبوبہ کی شادی پر دور سے کرتے ہیں تا کہ سلامی نہ دینی پڑے۔ہمارا تو بھلا ہی ہوا ورنہ مزید کچھ سوالات کا سامنا کرنا پڑتا۔
    سب سے پہلے  عائش آئی اور ہماری طالب علم ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی پینتیس چالیس سوال داغ دیے۔ اچھے بچوں کی طرح سوال پوچھنے کی اجازت ضرور لی مگر یہ نہیں بتایا کہ اتنے سوالات ہوں گے. دراصل وہ اپنی دوسری بہنوں کو تیار ہونے کا موقع دینا چاہتی تھی جو اتوار کو واشنگ مشین ڈے منا رہی تھیں۔لودھی نے بھی آنے کی کوشش کی مگر ہم نے اسے منع کیا۔انبکس میں رشوت کی بھی پیشکش کی کہ اس کے انٹرویو پر ہم خاموش رہیں گے جو اس نے بخوشی قبول کر لی۔ ایک صاحب نے ہم سے زندگی کا مقصد پوچھا۔ یہ  نصاب سے باہر کا سوال تھا مگر ہم نے تکا لگا ہی لیا۔ ایک خوش قسمت نے ہم سے والدہ بہن اور بھائی کے رشتوں پر سوالات کے باؤنسر مارے جن پر ہم آؤٹ ہونے سے بال بال بچے۔ ایک محترم کو ہم سابق وزیر خزانہ یعنی اسد عمر جیسے لگے- ہم نے دل ہی دل میں ان کی بلائیں لیں اور کہا کہ اللہ ان کی زبان مبارک کرے۔ آٹھ ماہ کیا آٹھ دن بھی مل گئے تو آٹھ نسلیں تو سنور ہی جائیں گی اپنی۔ ایک صاحب کو ہم میں نجومی کی صلاحیت نظر آئی تو انھوں نے پاکستان کے مستقبل اور موجودہ حکومت کے اپنی مدت پوری کرنے کے امکانات کےمتعلق دریافت کیا۔ ہم نے کہا کہ دونوں کا مستقبل روشن ہے اگر عناںِ حکومت ہمارے ہاتھ دےدیا جائے۔ پھر ہمارے ابن بھائی یعنی ابن جعفر آئے اور انھوں نے ہمیں کرکٹ اور ایم ایس دھونی میں الجھایا۔ اتنے سوالات کا جواب دے کر ہماری انگلیاں جامد ہو چکی تھیں مگر مجال ہے کہ میزبان نے کہا ہو کہ وقفے کے بعد ملتے ہیں۔ مہمان کو چائے پانی بھی پوچھتا یے انسان۔ عدیل عدل بالکل نہیں ہواہمارے ساتھ۔
    ہمارے ہاتھ شل تھے کہ خواتین تیار ہو کر آ گئیں۔ جو واقف نہیں تھیں انھوں نے ایک آدھ سوال کیا۔ جو ہم سےواقف تھیں انھوں نے پانچ سے بیس سوال داغے۔ تاہم یہ اندازہ ہوا کہ سب نے اپنے اپنے سوالات بانٹے ہوئے تھے جیسے امتحانات میں نالائق بچوں نے مضمون کے اسباق بانٹے ہوتے ہیں کہ فلاں سبق کی نقل میں کرواؤں گا اورفلاں کی فلاں۔ ایسے ہی عائش نے ہم سے ذاتی زندگی کے سوال اور پسند ناپسند پوچھی تو حریم نے لکھنے سے متعلق سوالات داغے۔ ارم منہاس استانی ہیں تو انھوں نے فیس بک گروپ زندگی اور تحریر سب کو کھنگالا تاہم امید ہے کہ پانچ بہترین جوابات کے نمبر دیں گی وہ۔ سمیرا صاحبہ نے ہمارے غصے اور لوگوں کی صورت و سیرت سے متعلق آگاہی حاصل کی۔ اتنے جوابات کے بعد ہم اطمینان سے سو گئے کہ اب کچھ باقی نہیں رہا۔
    تاہم صبح اٹھے تو ایک مردانہ نام والی لڑکی نے جن کو واشنگ مشین کے علاوہ مہمانوں سے بھی نبٹنا تھا نے کوئی درجن بھر سوال پوسٹ کیے ہوئے تھے جو ہماری سعودی عرب میں زندگی سے متعلق تھے۔ ساتھ ہی بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا گیا تھا کہ کیا مزید سوالات کی اجازت ہے ؟
    کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔
    ہم نے اوپرے دل سے تو کہا کہ ضرور کریں مگر اندر کی بات یہ ہے کہ دعا کی کہ یا اللہ اب تو ہی بچانے والا ہے۔ایک مرتبہ  پھر اللہ نے ہماری سنی اور مزید سوالات نہیں آئے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    2 تبصرے برائے “انٹرویو ایسے ہی ہوتے ہیں”


    1. ibrahim
      بتاریخ ستمبر 10th, 2021
      بوقت 8:50 صبح

      پڑھ کر مزہ آیا


    2. ابنِ ریاض
      بتاریخ ستمبر 11th, 2021
      بوقت 12:53 شام

      بہت شکریہ جناب

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی