امتحانات  ضروری ہیں «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • امتحانات  ضروری ہیں

    تحریر: ابنِ ریاض

    ہماری حکومتیں ہمیشہ سےایسے فیصلے کرتی رہی ہیں جو عام فہم دماغ کے معیار سے بہت اونچے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے لوگ ان کی حکمت کا ادراک نہیں کر پاتے اور حکومت پر طنز کے تیر چلا دیتے ہیں۔ کچھ روز قبل بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملا  جب  حکومت نے فیصلہ کیا کہ کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے  بورڈ کے امتحانات نہیں ہوں گے اور پچھلے نتائج کی بنیاد پر طلباء مزید تعلیم جاری رکھ پائیں گے۔ اس سے ان طلباءمیں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے جنھوں نے اللہ کی آس پر امتحانات پاس کرنے تھے اور اللہ کی بے پایاں رحمت و مدد پر اب ان کا ایمان غیر متزلزل ہے۔ یہ طالب علم جھولیاں اٹھا اٹھا کر کرونا کو لمبی  عمر کی دعائیں دے رہے ہیں۔

    کچھ ایسے طالب علم بھی ہیں جنھوں نے  فرسٹ ائیر میں ساڑھے پانچ سو میں سے پونے تین سو نمبر لئے تھے۔ خراب نتیجہ آنے پر انھوں نے عہد کیا تھا کہ اب سے  وہ  پڑھنا شروع کریں گے اور سوا چار سو نمبر لے کر پچھلے داغ دھو ڈالیں گے۔ انھوں نے اپنے عہد کی لاج رکھی۔ خوب پڑھا اور پھر لاک ڈاؤن نے بھی ان کی مدد کی کہ گھر سے باہر کی سرگرمیان محدود ہو گئیں۔ یوں انھیں پڑھنے کے مزید مواقع ملے اور انھوں نے پورا کورس بھی دو ماہ میں تہتر دفعہ دہرا لیا تھا۔حکومت کے امتحانات نہ لینے کے فیصلے سے ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ کہتے ہیں کہ انسان کچھ بھی کر لے اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ ان بچوں کے معاملے میں تو یہ بات  بالکل سچ ہے۔

    ان کے علاوہ جامعات کےطلباء بھی اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب حکومت کے لئے ووٹوں کی ضرورت تھی تب تو ہم آگے آگے تھے۔ ان بلونگڑوں کا تو اس وقت نام ونشان بھی نہ تھا۔اب امتحانات ختم کرنے کا فیصلہ ہوا تو ان بچوں کو نواز دیا گیا

    منزل انھیں ملی جو شریک سفرنہ تھے

    ہمارا کسی کو خیال نہیں آیا۔ ہمارے بھی دل میں ارمان تھے لیکن آپ اب وہ آنسوؤں میں ہی بہہ گئے۔ ہماری حکومت نے ہمیں سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا۔ ہم نے کوئی کرپشن کی، ملک کو لوٹا یا کسی اور جرم کے مرتکب ہوئی؟ ایک سادہ سی خواہش تھی

    امتحانوں سے چھٹکارا چاہتا ہوں

    مری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں

    آہ یہ  تمنا بھی حسرت میں بدل گئی۔

    ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ جو نویں میں ہیں کیا انھیں آٹھویں کے نتیجے پر دسویں میں بھیجا جائے گا ؟  پنجاب میں   دسویں  جماعت  کے امتحانات  تو ہو چکے ہیں سو ان کا تو نتیجہ  آ جائے گا  ۔اور  اگر دوسرے صوبوں میں   دسویں جماعت کے امتحان نہیں ہوئے تو دسویں والے گیارہویں میں نویں جماعت کے  نتیجے پر اب تو شاید چلے جائیں مگر ساری عمر( ہر جگہ داخلے اور نوکری کے حصول کے لئے) جو انھیں میٹرک کی سند دکھانی ہوتی ہے اس کا کیا بنے گا؟ وہ جو کچھ مضامین میں فیل تھے وہ اس مرتبہ بھی یہ سہرا سر پر سجائے پھریں گے ؟ طلباء کی ترقی کے معاملات پر بھی کوئی  قابل فہم   منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔مالِ مفت دل بے رحم کی طرح نمبر نہ بانٹے  جائیں کہ  کم محنت کرنے والوں کے نمبر دیکھ کر  محنتی  طلباءمایوسی کا شکار ہوں۔ہمیں امید ہے کہ  حکومت نے اس پرغور کیا ہوگا اور ان کے پاس اس کا مناسب حل بھی ہو گا۔ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی حکومت پہلے ہی ایک شعبے میں دے چکی ہے۔ تعلیم کو بھی اب اس میں شامل سمجھیے۔ تاہم  کسی طور بھی یہ احسن اقدام نہیں کہا جا سکتا۔ اگر یہ روایت دوسرے شعبوں اور اداروں میں بھی چلی گئی تو اس سے حکومت کو بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ مسلمان کے پاس کچھ ہو نہ ہو ماضی شاندار تو ہوتا ہی ہے۔۔

    تعلیم اور تعلیمی اداروں میں طلباء کے بعد دوسری اہم اکائی استاد ہے۔ اگر اس ملک میں کوئی قانونی پسند گروہ ہے تو وہ اساتذہ کا ہے۔ تاہم اساتذہ بھی امتحانات نہ ہونے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے پڑھتے ہی امتحانات کے ڈرسے ہیں اب امتحانات نہ ہوئے تووہ جو کتاب پر سے گرد اتار کر موبائل میں نوٹس محفوظ کیے جاتے تھے طلباء اس سرگرمی سے بھی جائیں گے۔ اس سے ان کے تعلیمی معاملات میں حرج ہو گاامتحانات کی وجہ سے ہی تو اساتذہ کا احترام ہے اب طلباء میں ۔ علاوہ ازیں  طلباء کے لئے بھی امتحانات زندگی کی تیاری کے لئے بہت ضروی ہیں۔ یہیں بچے سیکھتے ہیں کہ نگرانوں کی موجودگی میں کیسے نقل کی جائے کہ بائیں ہاتھ میں موجود پرچی کا دائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو سکے ایسے  طالب علموں کے لئے دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بھی کچھ مشکل نہیں ہوگا۔

     طلبا کے علاوہ یہ سرگرمی ان کے بہی خواہوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے 1990 کے عشرے میں طالب علموں کی کالجوں میں فوجی تربیت ہوتی تھی۔اس تربیت میں انھیں بنیادی پریڈ، بنیادی ورزشیں اور ہتھیار یعنی گن چلانا اور ہدف پر نشانا لگانے کی مشق کروائی جاتی تھی۔ اب وہ تربیت کالجوں میں تو ختم ہوگئی ہے مگر امتحانات میں وہ اب بھی دکھائی دیتی ہے۔ امتحان گاہ کے گرد اتنے  چوکیداروں، پولیس اور امتحان گاہ میں موجود نگران عملے کی موجودگی میں دوسری تیسری منزل پر موجود بیسیوں طالب علموں میں سے  اپنے بچے، بھائی یا دوست کو بوٹی یا پرچی  پہنچا دینا بھی تو فوجی مشق ہی توہے۔ سو امتحانات منسوخ کرنے سے ہم تعلیمی اہداف کے علاوہ اپنے فوجی مقاصد سے بھی دور ہو جائیں گے۔ یوں بھی حکومت کی ہدایت ہے کہ ڈرنا نہیں لڑنا ہے تویہ امتحانات تو اسی مقصدکی تکمیل میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سندھ نے  تا حال وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی توثیق نہیں کی۔

    گھروں میں خواتین پہلے ہی بے حال ہیں۔ دو ماہ سے بچے بڑے سب گھر ہیں۔ کبھی اپنا بچہ کچھ فرمائش کرتا ہے تو کبھی ساس کا بچہ۔ امتحانات کے باعث کم از کم اپنے بچوں کا دھیان توفرمائشی پروگرام سے کچھ روز کے لئے پڑھائی کی طرف جاتا۔اب  سکون کی وہ گھڑیاں بھی خواتین کے ہاتھ سے گئیں۔

    کچھ  لڑکوں کے فیل ہونے پر والدین انھیں   چنگ چی  لے دیتے ہیں کہ اگر پڑھنا  نہیں ہے تو  گھر کےاخراجات میں ہمارا ہاتھ بٹاؤ اور فیل ہونے کی سزا کے طور   پر  اکثر لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کر دئیے جاتے ہیں۔حکومت نے انھیں  بھی پاس کر کے ان کے ارمانوں کا خون کر دیا ہے۔

    ہمارے ہاں امتحانات کی تیاری کا سب سے آزمودہ طریقہ مشترکہ پڑھائی ہے جس میں گروپ میں موجود تمام لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ سمجھاتےہیں اور سب کو سب کچھ سمجھ آ جاتا ہے سوائے پڑھائی کے۔اب اگر امتحان نہ ہوں گے تو مشترکہ پڑھائی(کمبائن اسٹڈی) والی ہماری قومی ثقافت پر بھی ضرب لگے گی۔سو معاملہ تعلیمی نہیں بلکہ ہمہ جہتی ہے۔

    یون بھی حیرت کی بات ہے کہ جب باقی کاروبار کھل رہے ہیں تو تعلیم یعنی امتحانات پر پابندی لگا دی جائے۔یہ تو علم دشمنی والا قدم ہے جبکہ حکومت تو علم دوست ہے۔ سو حکومت کو چاہیے کہ امتحانات ضرور لے بھلے بعد میں بچوں کا نتیجہ ظاہر نہ کیا جائے۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی