ہم نے کرونا ویکسین    استعمال کی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ہم نے کرونا ویکسین    استعمال کی

    تحریر: ابن ریاض

    گزشتہ  برس کے اختتام پرسعودی عرب میں  کرونا کے ویکسین کے متعلق  سنا جا رہا تھا اور ایک ایپ پر ہم نے بھی خود کو رجسٹر کروا دیا تھا۔پاکستان والے بھلے اس کو سنجیدہ نہ لیں مگر بیرون ممالک تو ہمیں مال، ہسپتال، سکول،جامعہ کہیں بھی جانا ہو دروازے پر پوچھا جاتا ہے کہ "توکلنا  "ایپ ہے۔ اس ایپ سے کرونا سٹیٹس ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مرتبہ حج کے لئے بھی ویکسین لازم قرار دی گئی ہے اور بین الاقوامی پروازوں کے لئے یہ جلد  ہی لازم قرار پائے گی۔

    پاکستان میں جب ہمارا قیام تھا توہم نے پولیو ویکسین نے متعلق سنا کہ اس سے جنسی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آیوڈین والا نمک جب آیا تھا تب بھی یہی  افواہیں تھی کہ   آیوڈین سے انگریز مسلمانوں کی آبادی ختم کرنا چاہتے ہیں۔تاہم     مشاہدہ تو یہی   ہوا کہ ہر دو  تین سال میں پاکستان کی آبادی میں کروڑ ڈیڑھ کروڑکا اضافہ  ہی ہوا ہے۔ اگر   انگریزوں کا ان دواؤں سے یہی مقصد تھا تو انھیں پاکستان سے یہ  اٹھا لینی چاہیں کیونکہ یہاں ان کا اثر  الٹا ہو گیا ہے۔کرونا ویکسین سے متعلق بھی ایسی ہی افواہیں  گرم  ہیں۔  یہاں  ایک سعودی سے ہم نے پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ   آبادی کم کرنے کی کوشش ہے ۔  کرونا ویکسین ایک سست الاثر   زہر ہے۔ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ  کرونا  کی ویکسین کے نتیجے میں حمل    پر مضر اثرات  مرتب ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت صحت نے اس کی تردید کی اور واضح کیا کہ ویکسین کے دو ماہ تک  حمل  سے احتیاط کرنی ہے۔ حالانکہ  ایسا  مسائل ہوتے تو پہلے داکٹرپہلے خود کیوں ویکسین لگواتے۔ بھلا جان کسے پیار نہیں ہوتی۔

    مختلف   تحقیقی  ادارے اور دوا ساز کمپنیاں اب کرونا کی ویکسین بنا رہی ہیں۔ پاکستان نے چین  اور برطانیہ سے  ویکسین لی ہے  جبکہ اب بھارت سے بھی درآمد کی جا رہی ہے۔سعودی عرب والوں نے برطانیہ سے ویکسین لی ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی والوں نے بنائی ہے۔ اس کی دو خوراکیں ہیں۔ گزشتہ ہفتے  ہمیں  معلوم ہوا کہ  کرونا  ویکسین  کی پہلی خوراک ہمارے علاقے میں بھی دستیاب ہے۔ساتھ ہی معلوم ہوا  کہ  دو خوراکوں  میں قریب تین مہینے کا وقفہ دینا ہے۔ پہلے ہم نے سنا تھا کہ بیس دن کا وقفہ ہو گا ان میں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بارہ گھنٹے بعد بخار ہونے کے کافی امکانات ہیں۔اب اگر ہم تاخیر کرتے اور لوگوں کا رویہ دیکھتے تو ہماری کچھ چھٹیاں دوسری خوراک کی نظر ہو جاتیں۔  ہم نے  فیصلہ کیا کہ بیگم اور ہم اکٹھے ویکسین  نہیں لگوائیں گے تا کہ اگر ویکسین  سے بخار ہو تو  گھر کا انتظام  چلتا رہے۔بعد ازاں  ہم نے نیٹ  پر ہدایات پڑھیں اور وقت لے لیا۔ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ بازو پر انجکشن لگنا ہے تو کھلے کپڑے پہن کر آنے ہیں-  ایک ایس ایم ایس آیا جس میں ویکسین  کا وقت  لکھا تھا اور ساتھ ہی اس  مرکز صحت کا نقشہ بھی۔یہ قریب چار کلومیٹر دور تھا۔ویکسین  کے متعین وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے  ہم گھر سے نکلے۔ ہدایات کے مطابق کھلی قمیص  پہن رکھی تھی۔وضو کرتے وقت بازو اوپر کر کے بھی دیکھ لیاتھا۔ اب ہم جی پی ایس سے مقام پر پہنچے تو  وہ مرکز صحت وہاں سے غائب ہو گیا۔    ہم ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ مگر مرکز صحت نہ دکھائی دیا۔ایک   گاڑی قریب رکی۔ اس میں سے ایک عربی باہر نکلا اور ہاتھ سے اشارہ کر کے پوچھا کہ انجکشن  لگوانا ہے ؟   ہم نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس نے بتایا کہ جی پی ایس لوکیشن ٹھیک نہیں بتاتا تو آپ نے آگے  جا کر بائیں ہونا ہے اور اس رستے پر چلتے جانا ہے۔پھر اس عربی نے کہا کہ میرے پیچھے چلو  ۔ جہاں  بائیں ہوئے وہاں اس نےاشارہ کیا کہ ان سیدھا چلے جانا۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور  آگے چلے تو ایک کلومیٹر بعد ہی مرکز صحت   موجود تھا۔ اس پر کرونا ویکسین  کے متعلق  ہدایت   موجود تھیں۔گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو   کافی لوگ نظرآئے جو ویکیسن ہی لگوانے آئے تھے ۔اب بھی ہم وقت سے چند منٹ پہلے پہنچ گئے تھے۔۔ ہم استقبالیہ پر گئے اور انھیں ایس ایم ایس دکھایا۔انھوں نے ہمارا اقامہ(شناختی کارڈ) لیا اورہمیں انتظار کرنے کا کہا۔کچھ  دیر میں ہمیں اندر  بلایا گیا۔اقامہ ہمارے حوالے کیا اور ہم سے موبائل نمبر معلوم  کر کے اس کا اندراج کیا گیا۔پھر ہمیں انجکشن  والے کمرے میں بھیج دیا گیا کہ جا بچہ رام بھلی کرے گا ۔ اس نے کہا بازو اوپر کرو۔ ہم نے اوپر کر دیا ۔  اس نے مزید اوپر کرنے کا کہا۔ہم نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں۔ کہتا قمیض اتارو۔ ہم نے اتاری تو   کندھے  کے بالکل قریب  انجکشن لگایا۔ انجکشن  بالکل ایسے تھا جیسے کسی نے ہلکی سی چٹکی کاٹی ہو۔ ہم نے قمیص  پہنی اور   گھر آئے اور سکون سے لیپ ٹاپ پر کام کرنے لگے۔ دیگر معاملات میں بھی کچھ مشکل پیش نہ آئی۔ تاہم جب رات کو سونے لگے تو جسم میں اکڑن اور گرمی کا احساس ہوا۔کچھ ہی دیر میں بخار ہو چکا تھا اور جسم بھی کانپ رہا تھا(بیگم کے خوف سے نہیں )۔ اگلا دن بخار میں گزرا۔ اس سے اگلے روز بیگم کو ویکسین لگوائی۔ بیگم کو بخار نہیں ہوا۔ تھوڑا بہت درد ضرور ہوا۔ ہمارے دوست داکٹرسہیل کے ساتھ بھی معاملہ دیگر نہ تھا۔داکٹر سہیل کو بخار ہوا مگر ان کی بیگم ویکسین کے باوجود بخار سے بچ گئیں۔ سچ ہے سب کا زور کمزوروں پر چلتا ہے۔

    ٹیگز: , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔