ہمیں تو ایسی شادی نہیں کرنی «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ہمیں تو ایسی شادی نہیں کرنی

    تحریر: ابن ِریاض

    ہفتہ کی شام جب  ایک عزیز استاد اور ہم منصب نے ہمیں ایک شادی کے ولیمے میں شرکت کی دعوت دی تو ہمیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ شادی بھی ہمارے ایک سعودی ہم منصب کی ہی تھی اور ہم اس سے لاعلم تھے۔ معلوم ہوا کہ جناب نے کوئی دعوت نامے نہیں چھپوائے اور نہ ہی ای میل کی بلکہ فرداًفردا ً سب کو ان کے دفتر کے کمرے میں آ کر شرکت کی دعوت دی او ہم چونکہ اس وقت اپنے دفتر میں موجود نہ تھے سو ہمیں غائبانہ دعوت  بلکہ خیالی دعوت پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

    احباب جانتے ہیں کہ ہم دعوت پر جانے میں کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیتے مگر ایسی دعوتوں کے لئے ہم پہلے سے اہتمام کر رکھتے ہیں کہ ایک آدھ وقت کا فاقہ کر لیتے ہیں تا کہ میزبان کو میزبانی کا پورا اجر ملے اور وہ ہماری کم خوری کو تکلف پر محلول نہ کرے مگر اب کے مسئلہ کچھ ٹیڑھا تھا ایک گھنٹے کے نوٹس پر تیار ہونا آسان نہ تھا۔ کپڑوں کا مسئلہ نہ تھا کہ صبح دفتر پہننے والے ہی زیب تن کر کے کام چلایا جا سکتا تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ہم انجانے میں تاخیر سے ظہرانے کے مرتکب ہو چکے تھے اور اتنی جلدی ہمارا معدہ عشائیے کے لئے تیار نہ تھا۔اس ملک میں ہم خود کو پاکستان کا سفیر سمجھتے ہیں۔ ہمیں ھرگز یہ گوارا نہ تھا کہ چند لقمے حلق سے اتار کر ہاتھ اٹھا دیں اور ملک عزیز کے نام پر آنچ آئے کہ پاکستانیوں کو کھانے کے آداب بھی نہیں معلوم۔ چنانچہ ہم نے معدہ کو سمجھانے کے لئے  اقبال صاحب کے  مصرعوں سے گرمایا کہ

    تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

    اور

    مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

      اقبال کے اشعار سے تو بڑے بڑے قائل ہو جاتے ہیں یہ تو معدہ تھا۔ ساتھ ہی اسے کچھ لالچ بھی دیا کہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں تھوڑا کام مزید کر لو قریب ہی رمضان ہے۔ پھر بے شک سارا دن اونگھتے رہنا ۔

    کھانے کے علاوہ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عربوں کو دیکھیں گے۔ ان  کے رسم و رواج دیکھیں گے۔ اور اگر اچھے لگے تو ان کو رقم کر کے اپنے ہم وطنوں کو ان پر عمل کی دعوت دیں گے۔ ہم تو شادی شدہ ہیں ان پر عمل نہیں کر سکتے۔ تاہم اپنے لوگوں کو ضرور اس کی تلقین کریں گے۔ اور اگر لوگوں نے اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت بولا تو ہر چند کہ ہم ایک بار یہ لڈو کھا چکے ہیں تاہم عوام کے پرزور اصرار  اور ان کے اجتماعی مفاد میں اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے میں تامل سے کام نہیں لیں گے۔

    معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ عربوں کی شادیاں بہت ہی بے رونق ہوتی ہیں۔ خاندان کے بزرگ خواتین و مرد بات چلاتے ہیں اور اگر انھیں کوئی اعتراض نہ ہو تو لڑکی لڑکے کی ملاقات کرا دی جاتی ہے جہاں وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے اور کچھ باتیں کر کے ایک دوسرے کے خیالات کا اندازہ لگاتے ہیں اور پھر اگر دونوں کو کوئی اعتراض نہ ہو تو منگنی کر دی جاتی ہے جو بعد ازاں نکاح پر منتج ہوتی ہے زیادہ تر۔

     ہم جس علاقے میں ہیں کہ سعودی عرب  کا روایتی علاقہ ہے اور یہاں خواتین باقاعدہ نقاب کر کے نکلتی ہیں سو قریب قیاس یہی ہے کہ مندرجہ بالا طریقے سے ہی رشتہ طے ہوتا ہوگا۔ ریاض، جدہ اور دیگر شہروں میں جہاں پردہ پر اس طرح زور نہیں اگر کوئی لڑکا یا لڑکی والدین کی مرضی بنا شادی کر لیں تو اس بارے میں ہم لا علم ہیں۔ اگر کبھی علم ہوا تو آپ کے ساتھ ضرور بانٹیں گے۔

     شادی کا طریقہ بھی بہت سادہ ہے کہ خاندان کے چند لوگ جاتے ہیں اور نکاح پڑھا کے لڑکی کو لے آتے ہیں۔ اور لڑکی والوں کے ذمے کوئی کھانا وانا بھی نہیں ہوتا۔ ہمیں تو بہت تعجب ہوا یہ جان کر۔ یہ بھی بھلا کوئی شادی ہوئی۔ جہاں ہفتہ بھر پہلے سے تیاریاں نہ شروع ہوں۔ اور ہر تقریب کے الگ سوٹ نہ سلیں۔ نہ مہندی کی رسم ہو۔ نہ ہی دولھا سہرا پہنے اور چہرے پر معصومیت سجائے آئے۔ نہ دودھ پلائی ہو نہ جوتی چھپائی۔ اور نہ ہی لڑکی والےچار چھ سو بندوں کی ضیافت کا اہتمام کریں اور نہ ہی لمبا چوڑا جہیز۔ولیمے کا اہتمام لڑکے والے کرتے ہیں۔ تعدد ازواج البتہ یہاں ہے اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا۔اس کے برعکس زیادہ شادیاں سٹیٹس سمبل کے زمرے میں آتی ہیں۔

    ولیمے میں ہم نے دولھا دیکھا ۔ہمارا  خیال تھا کہ کچھ غیر روایتی لباس میں ہو گا دولھا۔ کوئی شیروانی  کوئی سر پہ کلا۔ یا پھر پینٹ کوٹ اور گلے میں ہار۔۔ یہاں بھی مزا کرکرا ہو گیا۔ وہی روایتی عربی لباس اور اس پر وہ گاؤن جو ہمارے ہاں طلباء حصول ڈگری کے وقت کنووکیشن پر پہنتے ہیں۔ ڈگری تو ملی کہ نہیں تاہم بیگم مل گئی۔ شاید عربوں کی نظر میں وہی ڈگری ہو۔ اگر وہ ڈگری ہے تو چند برس میں ڈپلوموں کی بھی لائن لگ جائے گی۔  ہمارا دل بد مزہ ہو گیا ایسی شادی دیکھ کر اور ہم نے فیصلہ کر لیا کہ ایسی شادی ہم نے تو نہیں کرنی۔ایسی شادی سے ہم لنڈورے ہی بھلے۔

    ہم پاکستانی  بھلے سعودیوں سے غریب سہی لیکن  ہمارے دل تو  بڑے ہیں ۔  پندرہ بیس اقسام کی ڈشیں تو غریب بھی  ولیمے پر پیش کر ہی دیتے ہیں ۔ دو تین قسم کے گوشت ،اتنی ہی اقسام کے چاول ،انواع و اقسام کے رائتے ، کولڈ ڈرنکس  اور میٹھا۔ہمارے لوگ تو  شادی کی  تقریب کی کامیابی و ناکامی کا اندازہ بھی  ولیمے سے لگاتے ہیں۔ یہاں کوئی مٹن کڑاہی کوئی نان بھی نہیں تھا۔ سویٹ آئس کریم  بھی   نہ دیکھی۔  چاول  بھی  محض ایک ہی طرح کے۔ ولیمہ میں ایک  بڑا سا تھال تھا جس میں چاول گوشت تھا جو کہ میز پر موجود چھ سات افراد کے لئے کافی تھا۔اچھا بنا ہوا تھا تاہم ساتھ چمچ نہیں تھے۔ ہمیں تو ایسا کھانے کا خاص تجربہ نہیں۔ چیزیں پہلے ہی نہیں تھی۔ پھر چمچ نہ رکھ  کر  ہمارے تو ہاتھ ہی بندھ دئیے۔ آدھا لقمہ منہ میں اور آدھا میز کی زینت بنتا رہا۔ کھانے کے دوران علم ہوا کہ گوشت اونٹ کا ہے۔ سو اونٹ گوشت بھی چکھ لیا۔ خدا لگتی یہی کہ لذیذ تھا۔ اس کے بعد ہم نے کچھ پھلوں پر ہاتھ صاف کیے ۔ سو ہمارے نزدیک تو یہ تقریب بالکل ہی ناکام تھی۔   ہاتھ دھو کر واپسی کی راہ لی۔ یہاں تحفہ دینے کا بھی رواج نہیں کم از کم ہمارے سامنے تو کسی نے دولہے کو سلامی نہ دی۔ ہم نے بھی ان کی اس اچھی  روایت کو دل سے داد دی۔ دولھے کو سلام کر کے اور مبارک باد او ر  دعائیں  دے کے گھر کی راہ لی۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔