چھوٹی سکرین، بڑا فنکار «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • چھوٹی سکرین، بڑا فنکار

    تحریر: ابنِ ریاض

    پاکستان ٹی وی نے چھوٹی سکرین کے بہت بڑے بڑے نام دیئے ہیں جن کا مقابلہ کسی بھی بین الاقوامی فنکار سے کیا جا سکتا ہے۔ ان میں طلعت حسین، شفیع محمد، شکیل، فردوس جمال، قوی خان جیسے منجھے ہوئے اداکار شامل ہیں۔ ان عظیم فنکاروں کی صف میں ایک ایسا اداکار بھی شامل ہے جس نے عمر تو بہت کم پائی مگر اس کا کام کسی طور بھی کسی سے کم نہیں ہے بلکہ وہ   بہت کم کام کے باوجود درج بالا فنکاروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور وہ فنکار ہے سلیم ناصر۔

      سلیم ناصر قیامِ پاکستان سے چند برس قبل بھارت کے شہر ناگپور میں اک پٹھان خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء نے صوبہ سرحد سے وہاں ہجرت کی تھی۔یوں پشتو ان کی مادری زبان تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی میں آ بسا۔ تعلیم کے بعد سلیم ناصر نے کچھ پرائیویٹ ملازمتیں کی لیکن ان کا رجحان اداکاری کی طرف تھا۔

    سلیم ناصر ایک ہمہ جہت فنکار تھے۔ جنھوں نے مختلف ڈراموں میں انتہائی مختلف کردار ادا کیے۔ انھوں نے زیادہ کام نہیں کیا مگر جو بھی کیا اس میں انمٹ نقوش چھوڑے۔ "نشانِ حیدر” میں کیپٹن سرور شہید کا کردار ادا کیا تو اک اور تاریخی ڈرامے "آخری چٹان ” کا مرکزی کردار بھی انھی کے نام رہا ۔بعد ازاں  "دستک ” میں اک وکیل کا کردار ادا کیا تو اپنے آخری ڈرامہ "جانگلوس” میں اک ظالم زمیدار کا منفی کردار بھی کمال خوبی سے ادا کیا جسے ان کی وفات کی بنا پر قبل از وقت ختم کرنا پڑا۔ مزاح کی جانب آئے تو” ان کہی” میں ماموں کا کردار لوگوں کو آج بھی یاد ہے اور” آنگن ٹیڑھا”کی بات کریں تو ایک خواجہ سرا کا کردار اس مہارت سے ادا کیا کہ اگر کہا جائے کہ انھوں نے پورا ڈرامہ ہی ہائی جیک کر دیا تو یہ مبالغہ نہ ہو گا۔ پاکستانی معاشرہ بعض معاملات میں بہت شدت پسند ہے۔ خواجہ سراؤں کے متعلق کام آج بھی اتنا آسان نہیں ہے لیکن انور مقصود نے خوب لکھا اور سلیم ناصر نے اس کردار میں روح پھونک دی۔ چالیس برس ہو رہے اس کردار کو  ادا کیے لیکن  جس نے دیکھا اس کے ذہن میں آج بھی اس کی چمک ماند نہیں پڑی۔

    سلیم ناصر  پیدائشی فنکار تھے۔ ممتنوع  کردار ادا کرنے کے باوجو د  وہ کہیں بھی اوور ایکٹنگ کا شکار نہیں ہوئے۔ وہ جس کردار کو ادا کرتے اس میں ایسے سما جاتے جیسے انگوٹھی میں نگینہ اور کردار سامنے آ جاتا اور سلیم ناصر پس منظر میں چلے جاتے۔

     انھوں نے اک لانگ پلے کیا تھا جس کا نام ہمیں اب یاد نہیں ۔ اس لانگ پلے  میں وہ بطور مریض کا کردار ادا کرتے ہیں جسے دل کا دورہ پڑا ہوتا ہے تایم وہ مریض  وارڈ میں سب مریضوں کو اپنی حرکات و لطیفوں و بزلہ سنجی سے  ہنساتا تھا۔ اس کا مقصد مریضوں کو محظوظ کرنا تھا تا کہ کچھ دیر کو وہ اپنی تکلیف بھول کر ہنسیں مسکرائیں۔  اس ڈرامے کے اختتام پر انھوں دوسرا دورہ پڑتا ہے اور وہ انتقال کر جاتے ہیں ۔ کچھ ہی عرصے بعد حقیقت میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا کہ وفات سے اک ماہ قبل انھیں اک دورہ پڑا جس سے وہ صحت یاب ہو گئے تاہم اک ہی ماہ بعد دوسرا دورہ پڑا اور وہ جانبر نہ ہو سکے اور حرکتِ قلب بند ہو جانے سے انتقال  کر گئے۔

    سلیم ناصر کے انتقال پر صدر و وزیر اعظم کے علاوہ جب صوبی سرحد کے گورنر نے تعزیت کی تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ صوابی صوبہ سرحد سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کسی بھی انداز سے پٹھان نہ لگتے تھے۔ شکل و صورت سے اور نہ ہی لہجے سے کیونکہ ہمارے پٹھان بھائیوں کا اردو بولنے کا لہجہ و تلفظ ان کی قلعی کھول دیتا تھا۔ آپ فردوس جمال کو لے لیں۔ بلاشبہ بہت بڑے اداکار ہیں مگر لہجے سے معلوم ہو جات ہے کہ پٹھان ہیں۔

    19 اکتوبر 1989ء کو جس روز ان کا انتقال ہوا تو وہ جمعرات کا روز تھا اور ان دنوں ہفتے کے اختتام پر فلم لگا کرتی تھی۔ 1997ء تک پاکستان میں جمعے کو چھٹی ہوتی تھی سو جمعرات ہی ہفتے کا اختتام ہوتا تھا۔  اس زمانے میں صرف پی ٹی وی ہی ہوتا تھا اور عوام کو رات ساڑھے نو بجے کے خبرنامے میں سلیم ناصر کے انتقال کا علم ہوا۔ تاہم پی ٹی وی نے اپنے معمولات کے مطابق فلم لگائی تھی شاید اس کا نام "جانِ من” تھا اور شاہد کی فلم تھی۔ ہم حیران تھے کہ پی ٹی وی کیسے آج کے روز فلم لگا سکتا ہے جب اس کا اک اتنا بڑا ادا کار انتقال کر گیا ہے۔ آج کل چونکہ مرنا بدقسمتی سے عام ہو گیا ہے تو شاید نئی نسل کے قارئین کو ہماری بات سمجھ ہی نہ آئے لیکن ہمیں یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں کسی کا انتقال ہو جائے تو بچوں تک کو اونچا بولنے کی اجازت ہوتی تھی اور نہ ہی چند روز تک محلے میں ٹی وی ریڈیو اونچی آواز میں چلتا تھا۔ پورا محلہ سوگواران میں شامل ہوتا تھا۔ تاہم ہمارے جذبات کو کسی اخبار نے اپنے الفاظ میں ڈھالا تھا اور پی ٹی وی کی بے حسی کو سخت الفاظ مین نشانہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کشور کمار کو جب وفات سے قبل دل کا دورہ پرا تھا تو دور درشن نے سارے پروگرام چھوڑ کر ان کے متعلق معلومات دی تھیں جبکہ پی ٹی وی اپنے ایکٹر کے انتقال پر فلم تک نہ روک سکا۔

    سلیم ناصر کا حقیقی نام سید شیر خان تھا۔ یہ ہمیں ان کے متعلق تحقیق کرتے ہوئے معلوم ہوا۔ اتفاق سے ہمارے پسندیدہ مصنف انشاء جی کا نام بھی شیر محمد خان تھا۔ نام کے علاوہ بھی ان دونوں عظیم فنکاروں میں کچھ حیرت انگیز مماثلتیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ دونوں نے قیامِ پاکستان کےبعد بھارت سے ہجرت کی۔ دونوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ دونوں اپنے اپنے شعبوں کے پہلوان ہیں او دونوں میں اپنےشعبوں میں بہت متنوع کام کیا۔ دونوں کراچی میں مدفون ہیں(ابنِ انشاء پاپوش نگر میں اور سلیم ناصر گِزری میں)۔ دونوں طبعی عمر کے لحاظ سے  کم عمری میں ہی اس دنیا سے چلے گئے۔  دونوں کو وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا اور دونوں اپنے کام کے  حوالے سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

    بہروز سبزواری پچھلے پچاس سال سے ٹی وی پر کام کر رہے ہیں اور ٹی وی کا ایک بڑا نام ہیں۔ سلیم ناصر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے سلیم ناصر بننے کی بہت کوشش کی مگر ہم باوجود کوشش کے  سلیم ناصر نہ بن سکے۔سلیم ناصر ایک تھا اور ایک ہی رہے گا ۔

    ٹیگز: , , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔