اندر کی بات «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • اندر کی بات

    تحریر: ابنِ ریاض

    ستارہ اردو فینز کی پرانی رکن ہے۔ چونکہ اس کا نام ستارہ ہے اور ستارے کا تعلق بہرحال روشنی سے ہوتا ہے یا یہ کہنا چاہیے کہ روشنی کا تعلق ستاروں سے بھی ہوتا ہے تو اس میں روشنی کی صفت پائی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اچانک غائب ہو جاتی ہے اور پھر کسی کو نہیں پتا کہ کب واپس آئے گی؟ آئے گی بھی کہ نہیں۔مگر پھر یہ اچانک آ کے سب کو حیران کر دیتی ہے۔ کسی کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا تو کسی کو صدمے میں۔

    تا ہم اس مرتبہ  تو اس نے ہمارے فورم پر بجلیاں ہی گرا دی ہیں نیوز کاسٹر بن کے۔ ایسی ایسی خبریں کہ ایک لمحہ تو بی جمالو بھی حیران پریشان ہوتی ہے کہ اس نے تو اسے  بھی مات دے دی اور دوسرے ہی لمحے اللہ کا شکر بجا لاتی ہے کہ کوئی اس کو کام بلکہ مشن کو آگے بڑھانے والی تو آئی۔ ورنہ یہ مشن بھی ماضی کے بعض دوسرے پیشوں کی مانند صرف داستانوں کا حصہ رہ جاتا۔

    ہم تذکرہ کر رہے ہیں "یو ایف مصالحہ نیوز” کا۔ اس تھریڈ نے بلاشبہ ایک بار پھر اس فورم کی رونقوں کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اور اس وقت یہ واحد تھریڈ ہے جو ہم پڑھتے ہیں اور تو اور لوگوں کے تبصرے بھی۔ البتہ خود تبصرہ کرنا ہماری عادت نہیں سو لب سی اور ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔

    سب سے دلکش تو ستارہ کا خبریں پڑھنے کا  انداز  ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ خبروں میں مصالحے ڈالنے کے لئے خوبصورت الفاظ و تراکیب کا استعمال اور پھر تصاویر کے ذریعے منظرکشی۔ سامعین و ناطرین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ تا ہم یہ تحریر ہم نے پروگرام کے خوبیوں پر نہیں بلکہ خبروں کے ایک حصے "اندر کی بات” پر تبصرے کے لئے لکھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ خبر ہمارے متعلق نہ ہوتی تو ہم خود ہی اسے اول انعام دیتے۔ تاہم ہمارے خلاف لکھ کر اس تحریر نے اپنے نمبر خود ہی گنوا دئے۔

    "اندر کی بات ” پر ہمیں پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ اندر کی بات اندر ہی رہنی چاہیے تھی۔ یہ کوئی شرافت نہیں کہ آپ اندر کی بات باہر نکال کر دوسروں کی زندگی میں کھنڈت ڈالیں اور وہ بھی پروفیسر ابن، ریاض جیسی گرانقدر اور عظیم الشان ہستی پر( ہماری نظر میں)۔  دوسرا اعتراض یہ کہ تمام مخبروں اور دوستوں سے خبر کی حقیقت کے متعلق معلوم کیا گیا مگر مدعا علیہ کی اپنی رائے جو کہ بالکل صائب ہوتی وہ نہیں لی گئی اور اگر لی گئی تو پیش نہیں کی گئی۔ اس سے خبرنامے کے مستند ہونے پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں، کم از کم ہمارے دماغ میں۔

    اس خبر میں ابن ریاض کی خوش پوشاکی اور خوش لباسی کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان کی ایک تصویر بھی دکھائی گئی ہے جس میں وہ تیار ہو کر جامعہ جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہین کہ تصویر ہماری ہی ہے اور کسی گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھائی ہے۔ تاہم یہ ہمارا پسندیدہ لباس ہے سعودیہ آنے سےبھی پہلے کا۔ اگرچہ پاکستان میں ہم اسے کم  ہی پہنتے تھے اس کی وجہ فقط یہ تھی کہ پاکستان میں ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا پڑتا ہے اور یہ سفر اکثر انگریزی والا سفر بن جاتا تھا۔اور اس میں ہمارا تو جو ہوتا تھا وہ ہوتا تھا مگر کئی ہزار کے کوٹ کا حال دیکھ کے ہم سے برداشت نہیں ہو سکتا تھا سو اب سعودی عرب  آ کر ہم اپنی خواہش پوری کر رہے ہیں۔

    اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا کہ  شاید ابن ریاض مزید شادیوں کے خواہش مند ہیں تو آپ سے کیا پردہ کہ جب ہم غیر شادی شدہ تھے تو اکثر سوچتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں اور اس کا ثبوت دینے کا طریقہ ہی یہی ہے کہ کم از کم ہماری چار شادیوں ہونی چاہییں۔ اور کسی سنت پر ہم عمل کریں نہ کریں یہ تو پوری کرنی ہی ہے۔ مگر

    شادی نے تیرے کس بل دیے نکال

    مدت سے آرزو تھی سیدھا کرے کوئی(معذرت کے ساتھ)

    تاہم کسی عربی عورت سے شادی میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر ہمارا کبھی دوبارہ من چاہا تو ہم عربی عورت کو ہی ترجیح دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خاتون عربی ہو گی تو گھر کا ماحول خوشگوار رہے گا۔ ساس بہو کی لڑائی میں ادھر ہماری والدہ نے کچھ ارشاد فرمایا تو ہم اس عفیفہ سے کہہ دیں گے کہ ہماری والدہ تمھاری شان میں قصیدہ پڑھ گیا اور جو جوابی قصیدہ ارشاد کیا گیا تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ محترمہ تلاوت قرآن پاک میں مصروف ہیں۔

     سو اب یہ خواہش ہم نے اپنے غیر شادی شدہ دوستوں کے لئے رکھ چھوڑی ہے کہ وہ میدان عمل میں اتریں اور ہماری ناتکمیل حسرتوں کو پورا کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔

    اس بات میں بھی کلام نہیں کہ ہم جہاں کام کرتے ہیں وہاں تمام کے تمام مرد ہیں بلکہ صنفِ کرخت ہیں۔ کبھی کبھی تو ہمیں اپنے پاکستان کی نوکری بہت  یاد آتی ہے کہ ادارے میں  پہنچتے ہی رنگ برنگ کے آنچل اور دیدہ زیب لباس نظر پڑتے تھے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی تھیں۔ جامعہ کو تو چھوڑیں جامعہ کی بس میں بیٹھتے ہی تصویر کائنات رنگین ہو جاتی تھی۔ بلکہ راستے بھر میں اپنے محلے میں اپنے شہر میں غرض کہ کون سا مقام تھا کہ جو اس خصوصیت سے پاک تھا۔۔۔ یہاں یعنی کہ ہمارے خطے میں تو خواتین شٹل کاک برقعہ پہنتی ہیں  جس میں سے آنکھیں بھی بمشکل دکھتی ہیں۔ اور پردے کا انتظام اتنا کہ گھروں کی      دیواریں بھی ہمارے شاہی قلعے کی  نہیں۔

      اب تو بقول رفیع اور نورجہاں

    وہ دن جب یاد آتے ہیں

    کلیجہ منہ کو آتا ہے

    خبر کے آخر میں پروفیسر صاحب کو گرتے ہوئے دکھایا گیا ہے مگر اس کی بھی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی بلکہ سنی سنائی پر یقین کر لیا گیا ہے۔گرے تو ہم نہیں تھے البتہ کچھ زخم ضرور آئے مگر وہ دل پر تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہم نے اپنی ایک تحریر ان عربوں کو پڑھنے کے لیے دے دی کہ اقبال کا کلام ہے۔ ہم انھیں اس کا ترجمہ سنا رہے تھے اور داد و تحسین وصول کر کے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ہمارے ہم پیشہ لوگوں میں سے کسی سے ہماری تعریف برداشت نہ ہوئی اور اس نے سر عام سچ بول دیا۔ ہم بھی ظالم سلطان کے سامنے کلمہء حق کے قائل تھے مگر یہ اصول ہم پر ہی لاگو ہو گا یہ کبھی سوچا نہ تھا۔ اب تو ہم خود کو یہی سوچ کر تسلی دیتے ہیں کہ کوئی نہیں اقبال کے بدخواہ اس دور میں بھی بہت  تھے اور   ختم تو  اب بھی نہیں ہوئے۔

    ٹیگز: , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔