ایک عظیم مجاہد کے اختتامی لمحات «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • ایک عظیم مجاہد کے اختتامی لمحات

    ہم اپنے جہازوں کے تیار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ یونس ہم سے ذرا پرے تھا۔  سکواڈرن لیڈر رفیقی اور میں اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں رفیقی کے چہرے پر تنائو بآسانی دیکھ سکتا تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم میں سے بچ کے کسی نے نہیں آنا۔ رفیقی مشن کا سربراہ تھا اور اپنے دو بہترین پائلٹوں کو موت کے پنجے میں لے جا رہا تھا سو تنائو ہونا بالکل فطری تھا۔فلائٹ لیفٹننٹ یونس کا بیٹا ابھی دو ہفتے کا تھا اور انھوں نے اسے دیکھا بھی نہیں تھا جبکہ میری (یعنی فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری کی) حال ہی میں شادی ہوئی تھی)۔ میں نے گھڑی میں وقت  دیکھا۔ اتفاق سے اس وقت پانچ بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے( یہ وہ ٹائم تھا جب پٹھانکوٹ ، آدم پور اور ہلواڑہ پر بیک وقت حملہ ہونا تھا مگر صرف پٹھانکوت پر وقت پر حملہ ہوا کیونکہ سرگودھا والے جہاز لاہور کی حفاظت کے لئے بھیج دئیے گئے  تھے۔) میں نے رفیقی سے کہا:

    Sir Pathankot must be under attack

    Rafique: Yes, must be

    بلا ارادہ ہی میرے منہ سے نکلا :

    What are we trying to prove?

    رفیقی نے میری طرف دیکھا۔ وہ غصے میں بہت کم آتے تھے مگر اس وقت وہ واقعی غصے میں تھے۔ جب وہ غصے میں ہوتے تو اپنے ساتھیوں کو مسٹر کہہ کر پکارتے تھے ۔ تو انھوں نے جواب دیا :

    Mr Cecil, I can take dozen other pilots if you don’t want to go

    میں نے جواب دیا:

    I will follow you to hell sir. You have got a wrong idea that I don’t want to go.

    پھر ہم چپ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد گرائونڈ کریو نے آ کر کہا کہ جہاز تیار ہے ہم نے یونس کو پیغام بھیجا کہ ہم تیار ہو رہے ہیں۔ میں نے اپنا پیراشوٹ اور ہیلمٹ اٹھایا اور اپنے جہاز کی طرف جانے لگا۔ رفیقی نے مجھے آواز دی۔ میں رک گیا۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو وہ میری طرف آ رہے تھے اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جیسے ہمیشہ ہوتی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا:

    You lived all your life laughing. Why you are serious now? Let’s go laughing.

    میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا:

    Yes sir we will go laughing.

    پھر مجھے کہتے ہیں:

    I hope Iris ( wife of Cecil) forgives me for this.

    Cecil: You won’t be there, I won’t be there, how does it matter(آپ نہیں ہوں گے میں نہیں ہوں گا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے )

    اس پر ہم دونوں ہنسے اور اپنے اپنے طیاروں کی طرف چل دئیے۔ یہ ہماری آخری بات چیت تھی۔

     

    ٹیگز: , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔