پاکستان کرکٹ  ٹیم کا عالمی کپ کا  سفر گانوں کے ساتھ «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • پاکستان کرکٹ  ٹیم کا عالمی کپ کا  سفر گانوں کے ساتھ

    تحریر: ابنِ ریاض

    کچھ عرصہ قبل ہم نے اک تحریر لکھی تھی جس کا عنوان تھا ‘مستقبل گانوں اور فلموں کا ہے’تاہم  موجودہ  عالمی کپ کے آغاز پر ہماری ٹیم کو کسی نے گانوں کے سائے تلے رخصت نہیں کیا۔ اس  کا انجام بھی سب نے دیکھ ہی لیا۔ آئندہ ہر ٹورنامنٹ سے قبل نئے گانے کے ساتھ ٹیم کو الوداع کیا جائے تو ہمیں امید ہے کہ ٹیم کی کارکردگی کو چار چاند لگ جائیں گے۔

    پاکستان نے اپنے ابتدائی دو میچ نیدرلینڈ ا ور سری لنکا سے جیت لئے۔ سری لنکا کے خلاف تو ہدف کے تعاقب کا ریکارڈ ہی بنا ڈالا۔ اس وقت ٹیم کی کیفیت تھی

    یہ محفل جو آج سجی ہے اس محفل میں

    ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے

    دو تین دن ہی گزرے تھے کہ بھارت والے سامنے آ گئے۔اس میچ سے پہلے سنا ہے چیئرمین  کی کھلاڑیوں سے ملاقات بھی ہوئی جس میں جوش و جذبے اور فتح و شکست سے بے نیاز ہو کر کھیلنے کا کہا گیا۔عالمی کپ میں ہماری 1992ء اور  1999ء والی ٹیمیں    غیر جانبدار مقامات  پر بھارت سے نہ  جیتیں تو  یہ   ٹیم جس نے اس ٹورنامنٹ سے قبل بھارت میں اک میچ نہیں کھیلا ، ببھارت سے کیا جیتتی ۔نتیجہ کیا نکلا وہ آپ جانتے ہیں اور اس کے بعد گانا تھا

    جیت دے دے کے تجھے ہم تو جیئے جائیں گے

    لوگ یونہی ہمیں رسوا کیے جائیں گے

    اگلا میچ آسٹریلیا کے ساتھ تھا۔ آسٹریلیا دو میچ ہار چکی تھی اور اس کی پوزیشن نازک تھی۔ چونکہ میچ  برصغیر کی پچ پر تھا جو کہ آسٹریلیا کی نسبت پاکستان کے زیادہ موافق تھی تو ‘شاندار ماضی’ کے باوجود پاکستانیوں کو امید تھی کہ اس مرتبہ پاکستان شاید آسٹریلیا کو ہرا دے مگر پاکستانی ٹیم نے اپنی روایات کو نبھاتے ہوئے کہا

    تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں

    جب تجھ سے میچ کھیلتا ہوں

    اگلا معرکہ افغانستان سے تھا۔ پاکستان  نسیم شاہ کے بغیر تھا مگر پھر بھی امید تھی کہ حکومتی تعلقات کیسے بھی ہوں افغانی عوام و پاکستانی عوام محبت کا یہ سفر جاری رکھیں گے مگر میچ کے بعد صورت حال یہ تھی

    دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا

    افغانی کھلاڑیو ہمیں تمھارا اعتبار نہ رہا

    اگلا میچ جنوبی افریقہ کے ساتھ تھا اور ہمارے لئے ہار کی گنجائش” نشتہ” پر پہنچ چکی تھی۔ پاکستانی ٹیم بہت اچھا تو نہ کھیلی مگر افریقہ والے کوئی انگریزوں کی طرح نظم و ضبط والے تھوڑی۔ سو وہ ہمیں مواقع  دیتے رہےاور اک موقع یہ بھی آیا کہ پاکستان تقریباً میچ جیت چکا تھا کہ فیصلہ کن صورت حال میں  منصف کا اک فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو صورت حال یہ ٹھہری

    ہم سے بدل گیا وہ (منصف) نگاہیں تو کیا ہوا

    زندہ ہیں کتنی ٹیمیں سیمی فائنل کھیلے بغیر

    اب نہ صرف پاکستان کو تمام اپنے مقابلے جیتنے تھے بلکہ دوجی قوموں جیسے نیوزی لینڈ کے ہارنے کی دعا یا بددعا جو بھی قارئین سمجھیں، کرنی تھی۔  بنگالی بھائی ہم سے الگ ہو گئے اور بہت ترقی بھی کر رہے ہیں مگر ان کے دل ہمارےساتھ دھڑکتے ہیں۔ انھوں نے ہمارے ساتھ کوئی تعصب نہ برتا اور وہی کھیل پیش کیا جو وہ ہر ٹیم کے خلاف کرتے رہے ہیں سو اس میچ کے اختتام پر صورت حال یہ تھی

    سات عجوبے اس دنیا میں آٹھویں اپنی جوڑی

    ٹوٹے سے بھی نہ ٹوٹے پاک بنگال کی جوڑی

    نیوزی لینڈ سے اگلا میچ ہمیں نہ صرف جیتنا تھا بلکہ جتنے زیادہ رنز سے جیتتے اتنا ہی نیوزی لینڈ کا رن ریٹ خراب کرتے  مگر میچ شروع ہوا تو

    نیوزی لینڈ نے ہمیں اتنا مارا اتنا مارا جتنا مارا جا سکتا تھا

    پھر بھی گیارہ کھلاڑیوں سے کتنا مارا جا سکتا تھا

    چار سو کا ہندسہ دیکھ کر عالمی کپ کو ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ  نیوزی لینڈ نے ہمیں میچ آدھی قیمت پر یعنی دو سو رنز پر ہی پیش کر دیا۔ صورت حال کچھ یوں تھی

    یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے

    ہمیں ڈور کوئی کھینچے عالمی کپ اور لئے جائے

    تاہم رن ریٹ کا کچھ خاص فرق نہ پڑا مگر اس موقع پر دوسری اقوام ہماری مدد کو آئیں۔ جنوبی افریقہ بس قسمت سے ہی جیتا تھا اور باووما کو یہ احساس سکون نہیں لینے دے رہا تھا کہ منصف کی اک غلطی سے اک ٹیم کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے سو چھوٹا پیک یعنی باووما اپنی فوج کے ساتھ  کیویز پر حملہ آور ہوا اور انھیں تہس نہس کر دیا۔ ان کے رن ریٹ کو بھی اچھا خاصہ غوطہ دیا۔ اس رات باووما گا رہا تھا

    ہم کالے ہیں تو کیا دل والے ہیں

    ہم تیرے تیرے تیرے چاہنے والے ہیں

    افغانیوں نے صرف ہمیں ہی نہیں ہرایا بلکہ آسٹریلیا پر بھی شب خون مارا۔ آسٹریلیا کو تو اس سے کچھ خاص فرق نہ پڑتا لیکن پاکستان کے لئے یہ بھاری ہو سکتا تھا۔ قریب تھا کہ افغانی میدان مار جاتے میکسویل نامی  اک سپاہی اٹھا اور اس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔  وہ زخمی بھی ہوا اور گرا بھی مگر اس کے جذبہ استقلال میں کوئی فرق نہ آیا اور وہ ہاری بازی جیت کر ہی گیا۔ اس روز میکسویل گا رہاتھا

    نائیک نہیں کھل نائیک ہوں میں

    پاکستانی ٹیم اس کا ساتھ دے رہی تھی۔

    اب قدرت کا نظام چل پڑا تھا۔ سری لنکا و نیوزی لینڈ کا میچ پاکستان کے لئے بہت اہم ہو گیا۔ اگر سری لنکا نیوزی لینڈ کو ہرا دیتا تو پاکستان کو اگلے میچ میں کامیابی سیمی فائنل میں داخل کر دیتی۔ سری لنکا نے بہت اچھا تو نہ کھیلا تھا مگر امید تھی کہ وہ چیمپئن ٹرافی میں شرکت کی کوشش کریں گے جس کے لئے انھیں اس میچ میں لازمی فتح درکار تھی۔ اگر اتنا نہ کر سکا تو بھی کم سے کم رنز سے ہارنے سے بھی پاکستان کا سیمی فائنل میں رسائی کا کچھ امکان رہنا تھا مگر لنکا نے اس بار ہم پر ہی لنکا ڈھا دی اور پاکستانی ٹیم اب گا رہی تھی

    دل تجھے دیا تھا رکھنے کو

    تو نے دل کو جلا کے رکھ دیا

    اب صورت حال یہ ہوئی کہ اگلا میچ برطانیہ سے نہ صرف جیتنا ہے بلکہ قریب تین سو رنز سے انھیں ہرانا ہے اور اگر وہ پہلے بلے بازی کریں تو پاکستانی ٹیم کو ہدف تین چار اووروں میں پورا کرنا تھا یعنی اگر پہلے بیٹنگ مل جاتی تو شاید اونٹ کے منہ میں زیرے جتنا امکان تھا مگر جونہی آخری میچ میں برطانیہ نے ٹاس جیتا اور بلے بازی کا فیصلہ کیا تو

    ‘ساڈا چڑیاں دا چنبہ ، اساں اڈ جاناں اے’

    نوشتہء دیوار تھا۔

    چونکہ پاکستان اک میچ چار سو رنز کے ہدف والا بھی جیت چکا تھا تو تین سو سینتیس کوئی بہت بڑا سکور نہیں تھا مگر ہمیں بزرگوں کا احترام سکھایا گیا ہے اور یہسکور ہمارے پہلے عظیم بلے باز حنیف محمد کی یادگار ہے۔ جب میچ جیت کر بھی ہم نے ٹورنامنٹ سے باہر ہی ہونا تھا تو اک عظیم کھلاڑی کی بے حرمتی چہ معنی دارد؟  پریشانی میں یہ کب یاد رہتا ہے کہ حنیف محمد نے یہ رنز ٹیسٹ میں کیے تھے  اور یہ میچ ایک روزہ تھا۔

    اب عالمی کپ پاکستان کو دیکھ کر گا رہا تھا

    میں تو اک خواب ہوں اس خواب سے تو پیار نہ کر

    پیار ہو جائے اگر پیار کا اظہار نہ کر

    ٹیم جب ہارتی ہے تو اس کا ذمہ دار اک کھلاڑی نہیں ہوتا۔ اس میں سب نے مقدور بھر حصہ ڈالا ہوتاہے اور یہی صورت حال جیت میں بھی ہوتی ہے کیونکہ یہ اجتماعی کھیل ہے۔ تاہم جب ٹیم جیتے تو کامیابی کا سہرا کپتان کے سر بندھتا ہے( 1992ء کے عالمی کپ کی مثال سامنے ہے) تو ہار پر بھی عوامی غیض و غضب کا زیادہ نشانہ کپتان ہی بنتا ہے اور بابر کی ناقص کپتانی پر بھی بہت لوگ بات کر رہے ہیں اور پھر اس مرتبہ بلے بازی کا جادو بھی نہ چلا سکا تو عام شائقین اب یہ گا رہے ہیں

    ،بابرا   وے لے جائیں نا لوگ تجھ کو’

    کھلاڑیوں کو عوامی ردعمل کا اندازہ ہے سو ان کے جذبات کچھ اس طرح ہیں

    اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل، جہاں کوئی نہ ہو

    اپنا، پرایا، مہرباں، نامہرباں کوئی نہ ہو

    ٹیگز: , , , , , , , , ,

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔