قصہ ہماری منگنی کا(تیسری قسط) «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • قصہ ہماری منگنی کا(تیسری قسط)

    تحریر: طاہرہ ناصر

    میں اپنی زندگی میں مگن تھی اور امی میری فکر میں ۔ وقت گزاری کے لیے قریب کے ایک اسکول میں ملازمت کر لی۔ بہن کی شادی کو بمشکل دس دن ہوئے ہوں گے کہ ایک دن اس کا فون آیا۔ امی نے فون ریسیو کیا ۔ میں اس وقت اسکول کی کاپیاں چیک کر رہی تھی ۔ ابتدا میں تو نارمل گفتگو ہوتی رہی ۔ عام امیوں کی طرح ،امی نے بھی بہن سے سسرال والوں کے ” حال احوال ” جاننے کی کوشش کی ۔ میں گاہے بگاہے امی پر نظر ڈال دیتی تھی۔ اچانک مجھے گفتگو میں کچھ تناؤ سا محسوس ہوا۔مجھے ایسا لگا کہ امی کی طرف سے خاموشی کا وقفہ کچھ طویل ہوگیاہے۔ اب وہ زیادہ تر ” ہوں ۔۔۔ ہوں ۔۔ اچھا” پر ہی اکتفا کر رہی تھیں ۔ میں نے جو نگاہ اٹھا کر دیکھا تو امی کی سرد نگاہوں کو اپنی جانب تکتے پایا۔
    ” یا اللہ! یقیناً میرا کوئی کارنامہ گوش گزار کیا جارہا ہے” اس بات کا تو مجھے پختہ یقین ہو چلا تھا۔ پر بہت سوچنے پر بھی مجھے یاد نہیں آیا کہ ایسی کونسی کاروائی میری بتائی جارہی ہے جس سے میں لاعلم ہوں۔ (ویسے بعض اوقات مجھے اپنی ہی حرکتوں کی حساسیت کا دوسرے کے ردّعمل سے اندازہ ہوتا ہے ورنہ میرے لیے وہ معمول کی بات ہوتی ہے)
    اب میرے دل کی دھڑکن غیر معمولی طور پر بڑھ چکی تھی۔ ہر وہ بات جو اب تک امی سے پوشیدہ تھی ،میں اس کے عیاں ہونے کے بارے میں سوچ چکی تھی۔ احمقانہ پن کی حد یہ تھی کہ یہ نہیں خیال آرہا تھا کہ بتانے والی وہ دس دن کی دلھن میری بہن تھی۔تو اس نے کیا ایسا میرے بارے میں بتا دینا تھا ؟بہر حال امی کی خاموشی میرا دل دہلا رہی تھی۔فون رکھ کر مجھے کڑی نظروں سے دیکھتی ہوئی وہ کچن کی جانب چلی گئیں ۔ ہائے اللہ ! کیا کروں ۔ اب کیا غضب ڈھا دیا ہےمیں نے۔ ویسے ہی بھانجے کے رشتے سے میرے انکار پر وہ کچھ روٹھی ہوئی تھیں۔
    شام تک میری دو بڑی بہنوں کو بھی فون ہو چکے تھے ۔مگر گفتگو اتنی آہستگی سے کی گئی تھی کہ گویا پاک بھارت جنگ کے لیے اسٹریٹیجک پلاننگ ہو رہی ہو۔ میری تو بھوک پیاس سب اڑ گئی تھی ۔رات کے کھانے پر ان دونوں بیاہتا اور نو بیاہتا کو گھر میں دیکھ کر میں سٹ پٹا گئی۔ یہاں دال میں کچھ کالا نہیں پوری دال ہی کالی لگ رہی ہے۔کھانے کے بعد امی نے مجھے کمرے میں بلایا۔ جہاں وہ برمودا ٹرائینگل ( تینوں بہنیں ) پہلے سے موجود تھیں ۔
    یہاں بیٹھو اور جو میں پوچھوں اس کا سچ سچ جواب دینا۔ امی نے کڑے لہجے میں کہا
    جی ۔۔۔پوچھیں ۔ میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا
    تم نے عائشہ سے کیا کہا تھا شادی میں؟ امی نے سرد لہجے میں پوچھا
    ہیں؟ یہ بات پوچھنے کے لیے میرا اتنا خون جلایا گیا۔میں ہونق بنی ان کو دیکھے گئی
    جتنا پوچھا ہے اتنا جواب دو۔امی کی ڈانٹ پڑی تو سارے کس بل نکل گئے
    وہ انھوں نے پوچھا کہ تمھارا کہیں رشتہ وشتہ ہوا کہ نہیں تو۔۔۔۔میں نے اگلا جملہ حذف کرنا چاہا
    تم نے کیا جواب دیا یہ پوچھا ہے میں نے؟ امی کی آواز بلند ہوئی
    وہ میں نے کہہ دیا کہ اس چڑیا کو کوئی دانہ ڈالتا نہیں ۔ میں نے جلدی سے کہہ کر اپنی خلاصی چاہی
    تینوں بہنیں قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں ۔میں نے امی کی جانب دیکھا تو وہ بھی اپنی مسکراہٹ روکنے کی کوشش کر رہی تھیں
    شرم تو تمھیں آتی نہیں ۔اس طرح کوئی کسی سے اپنے رشتے کی بات کرتا ہے۔ بڑی بہن نے گھُرکا
    اس کی زبان کے آگے خندق ہے ۔کہاں کیا بات کرنی ہے اب اس عمر میں بھی اسے سکھانا پڑے گا ۔بے ہودہ کہیں کی۔امی کا غصہ ختم ہونے کو نہیں آرہا تھا اور مجھے ان تینوں چڑیلوں پر سخت تاؤ آرہا تھا جو میری درگت بنتے دیکھ کر خوب مسکرا رہی تھیں
    ان کے دانت کیوں نکل رہے ہیں ۔ معمہ ابھی بھی حل طلب تھا ۔” اب ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے جو اتنی بڑی کابینہ بلا لی۔” میں سخت چڑی ہوئی تھی
    بی بی ! عائشہ نے اپنے سب سے بڑے بھائی کے لیے تمھارا رشتہ مانگا ہے۔ اسے ہماری یہ نمونی پسند آگئی ہے ۔ تمھیں اپنی بڑی بھابھی بنانا چاہتی ہے۔ نو بیاہتا بہن نے میرے کانوں پر ایٹم بم پھوڑا
    اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سخت صدمے میں ایک ٹُک سب کی طرف خاموشی سے دیکھے گئی۔

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔