طور سے نور تک «
Ibneriaz Website Banner

  • ہم وی آئی پی ہیں || مہنگائی کے دن گنے جا چکے ہیں || بیمار کاحال اچھا ہے || روزمرہ مشورے || بھینس || ایک دعا || سوئی میں اونٹ کیسے ڈالاجائے || پاکستان کی حکومت اور کرکٹ ٹیم || ہونا ہے تمہیں خاک یہ سب خاک سمجھنا ||
  • طور سے نور تک

    تحریر : اریبہ بلوچ

    وہ اپنے بوسیدہ وجود پر صدیوں کی تھکن کی قبا اوڑھے اپنے فگار پاؤں لیے آگے بڑھی۔ "آہ۔۔۔” اک سسکی کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔وہ چند لحظے وہیں ٹھہر گئی۔تاریکی کا ایک لامتناہی سلسلہ اس کے آس پاس پھیلا ہوا تھا۔ آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہوئیں تو اس نے اپنے پاؤں کی جانب دیکھا وہ ایک قبر کے اوپر تھا! خالی اور بے تاثر آنکھوں سے وہ اردگرد دیکھنے لگی۔ چہار سو قبروں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔دوبارہ اپنے پاؤں پر نظر دوڑائی،قبر پر ٹکا وہ لغزیدہ فگار پاؤں بالکل اس قبر جیسا دکھ رہا تھا۔شکستہ،خستہ،بنجر،کھردرا۔۔۔”فرق؟””ہاں فرق!”” فقط زندگی”!”ہاہاہا۔۔۔ زندگی!”اس نے زور دار قہقہہ لگایا ،اس کھوکھلے قہقہے کا طنز قبرستان کی سوگوار فضا کو مزید درد سے دو چار کر گیا۔ وہ ابھی تک یک ٹک اپنے پاؤں کو اس قبر پر ٹکے دیکھ رہی تھی ۔۔”لیکن وہ سسکی؟”“مردے کب سسکتے ہیں”؟ کوئی دور سے بولا:“ہاں مگر اس مٹی کی ڈھیری تلے جس کا خواب، خواب ہوا ہے اس کی تعبیر سسکتی ہے۔”سبھی قبروں پہ کتبے نصب تھے مگر ہر کتبے پر بس اک حرف کندہ تھا "زندگی!”۔اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا، ویران بے لکیر ہاتھ جو قبروں کی لیپائی کرتے کرتے اپنی لکیریں انہی میں دفن کر بیٹھے تھے!اس کی تمام عمر ہجرتوں میں گزری تھی۔ایک خدا سے دوسرے خدا تک کی ہجرتوں میں!عجیب شہر تھا ہر شخص خدا تھا! اس نے بھی مجبوری اور محبت میں کئی کو خدا بنا ڈالا تھا؛جہاں دل جھکا وہیں سر جھکا دیا،اسی کو کعبہ اسی کو مندر بنا دیا۔رکن بھی تمام پورے کئے؛اسی کا طواف کیا،اسی کے آگے دست دراز کیے،اسی سے محبت کی ،رحم کی بھیک مانگی،اسی کی بے رخی پہ کھانا پینا بارہا ترک کیا،اس کی مسکان پر سب وار دیا۔مگر اب؛ تھکن و درد کی ایک خانقاہ تھی جس کی پیشانی پہ سجی تختی پہ درج تھا: زندگی مایوسیوں کا جان لیوا سلسلہ ہے!”- اور جس کی چوکھٹ پر مرگ خدا کے بعد ملنے والے سبھی چارہ گر پڑے تھے۔”چھن چھن ۔۔”وہ حقیقتوں کے بھنور میں الجھی ہوئی تھی کہ کسی گھنگرو پازیب کی چھن چھن اسکی سماعتوں میں گونجنے لگی گویا کوئی رقاصہ گھنگرو باندھے محو رقص ہے۔ قبرستان کے عین وسط میں وہ بدصورت رقاصہ موجود تھی؛ وہ "وحشت” تھی! جو ویرانی کے گھنگرو باندھے اندھیروں کا ترنم بکھیر رہی تھی ۔اسکی بجھتی آنکھوں سے آخری آنسو جلا وطن ہوا تو چہرے کا دراڑ زدہ صحرا اسکا ذائقہ ہی محسوس کر پایا ۔وہ دیوانہ وار دوڑ اٹھی۔ قبریں پامال ہو رہی تھیں مگر اسے فکر نہیں تھی! تعبیریں سسک رہی تھیں مگر اسے فکر نہیں تھی!وہ دائرے کا سفر مکمل کر کے واپس اسی قبر پہ پہنچ چکی تھی ۔متلاشی آنکھوں کو قرار نہیں مل رہا تھا ۔وہ وہیں ڈھے سی گئی ۔یہ وہ قبریں تھی جنکی وہ صدیوں سے مجاوری کرتی آ رہی تھی۔یہ اسکا من مندر ،اسکا طور تھا! جدھر وہ نور کی تلاش میں آئی تھی پر یہاں قبریں، وحشت، سناٹا، ویرانی اور درد کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔“یہ تو میرا طور ہے پر یہاں نور کیوں نہیں؟””اس نے تین دن سے زیادہ سوگ ممنوع قرار دیا ہے! اور تم صدیوں سے ہر درد کی خود میں قبر بناتی آ رہی ہو ! صدیوں سے ہر قبر پہ چراغ جلاتی آ رہی ہو ! صدیوں سے انکی لیپائی کرتی چلی آ رہی ہو! تم نے خود اپنا دل قبروں کی سیاہی سے سیاہ کر دیا ہے؛اور وہ سیاہ دلوں میں نہیں رہتا!”بہت سی آوازیں اسکی سماعتوں میں شور کر رہی تھیں۔اس نے پسینے سے تر ہوتی اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا جو ناخداؤں کو سجدہ کرتے کرتے سیاہ پڑ چکی تھی۔ "ہاں!” اس نے اعتراف کیا،“رب کو منانے میں دیر نہیں لگتی!” وہ مسکرائی۔یوں لبوں کی جنبش سے صدیوں سے ساکت چہرے پر دراڑیں پڑیں تو لہو کے ننھے ننھے قطرے ٹپکنے لگے۔ وہ پکاراٹھی: "میرے اللہ!” پھر اسکے طور پر نور پھیلتا چلا گیا اور "جی میری بندی!” کی صدا اسکے بہت قریب سے آتی رہی

    ٹیگز: کوئی نہیں

    

    ایک تبصرہ برائے “طور سے نور تک”


    1. Sana Khan
      بتاریخ اپریل 28th, 2018
      بوقت 9:25 صبح

      زبردست تحریر

    تبصرہ کیجیے

    
    

    © 2017 ویب سائیٹ اور اس پر موجود سب تحریروں کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کوئی تحریر یا اقتباس کہیں بھی شائع کرنا ممنوع ہے۔
    ان تحاریر کا کسی سیاست ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ سب ابنِ ریاض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں۔
    لکھاری و کالم نگار ابن ِریاض -ڈیزائن | ایم جی

    سبسکرائب کریں

    ہر نئی پوسٹ کا ای میل کے ذریعے نوٹیفیکشن موصول کریں۔