تحریر: ابن ریاض
چند دن قبل بھارت نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر پاکستان پر جارحیت کی اور نہتے پاکستانی عوام و معصوم بچوں کو نشانہ بنایا تو پاکستان نے اس کے مشہور زمانہ رافیل سمیت پانچ طیارے مار گرائے اور لائن آف کنٹرول پر وہ دھول چٹائی کہ کچھ ہی دیر بعد بھارتی امن کا سفید جھنڈا لہرانے پر مجبور ہو گئے۔ تاہم پاکستان کے تحمل کو اس کی کمزوری سمجھا گیا اور لگاتار بھارتی ڈرون پاکستانی فضائی حدود میں آتے رہے اور ان میں سے ہر ایک کو پاکستانی افوج نے دھول چٹائی بلکہ بعد میں تو یہ پاکستانی عوام کے لئے کھلونا ہی بن گئے۔ اب تو ہماری عوام انھیں دیکھ کو تیتر مرغابی کی طرح ہی شکار کرتی ہے۔
پاکستان کے دفاعی اقدام پر بہت سارے پاکستانی ناراض و مایوس تھے اور اسے حکومت و افواج کی کمزوری و بزدلی سے تعبیر کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میزائل کیوں پاکستان پر گرے؟ ہمارا میزائل ڈیفنس سسٹم کیوں سو رہا تھا ؟ ظاہر ہے کہ ہماری فضا میں کمرشل فلائٹس چل رہی تھیں اور دوسرا جتنا بڑا ملک ہے اور جو اس کی معاشی حالت تو دفاعی بجٹ ہے اس میں میزائل شکن اسلحہ صرف انتہائی ہم ترین تنصیبات کے دفاع پر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم فوج و حکومت پر بے گناہ عوام کی شہادت قرض تھی۔ ڈرون بھی فضا میں نہ مار گرانے پر عوام مایوس تھی تو اس کے لئے عرض ہے کہ ان کی مرغی کے لئے اپنا بیل قربان کر دینا عقلمندی نہ تھی۔ رات جب انھوں نے پاکستان کے تین ہوائی اڈوں پر حملہ کیا تو اس حملے کو پسپا کرنے کے لئے وہی اسلحہ استعمال ہوا۔
پاکستان نے اس حملے کے بعد بھارت کی جارحیت کا جواب دینے کا فیصلہ کیا اور اب تک آپ کو معلوم ہو ہی چکا ہے کہ ہمارے شیروں اور شاہینوں نے ان کا کیا حال کیا ہے ۔ہم لوگ اپنی زندگی کی پہلی جنگ دیکھ رہے ہیں ۔ کارگل کی لڑائی بھی ہماری زندگی میں ہی ہوئی مگر اس وقت میڈیا اتنا مضبوط نہ تھا سو اس کے متعلق خبریں دیر سے اور بہت کم ملیں ۔
پاکستان کے حملہ کرنے کے بعد اکثریت یہ سوچ رہی ہو گی کہ پاکستان نے اتنا انتظار کیوں کیا ؟ جب ہمارے پاس صلاحیت تھی تو ہم چپ کیوں بیٹھے رہے تو اس کاجواب ہے کہ گھر کے بڑے صورت حال کو بہتر سمجھتے ہیں اور بچوں کو ہر معاملے میں اعتماد میں لینا ضروری نہیں ہوتا۔ پاکستان دنیا پر ثابت کر رہا تھا کہ وہ امن پسند ملک ہے اور اشتعال انگیزی نہیں چاہتا۔ تا کہ جب پاکستان حملہ کرے تو پاکستان پر جنگ کے آغاز کا الزام نہ آئے۔کل ہی پاکستان کی اگلی قسط آئی ایم ایف بورڈ نے منظور کی ہے جس کا پاکستان انتظار کر رہا تھا۔ اس دوران سامان حرب و اسلحہ کی جانچ اور انھیں ان کے مقررہ مقام پر پہنچایا جائے تا کہ جب حملہ کا اغاز ہو تو کوئی کمی و کوتاہی نہ ہو جس سے کسی تاخیر کا شائبہ بھی ہو۔
علاوہ ازیں سب سے اہم کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ پاکستان کی معیشت جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور انھیں ہم نے کہا تھا کہ یہ بات اگر آپ کو معلوم ہے تو یقیناً مودی بھی جانتا ہو گا مگر وہ شاید کچھ اور بھی جانتا ہے جس کی بنا پر وہ حملہ کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔ پاکستان چھوٹی و فیصلہ کن جنگ لڑے گا اور ایسے اہداف کو نشانہ بنائے گا کہ بھارت کی کمر ٹوٹ جاائے اور وہ خود جنگ بندی کی طرف چلا جائے۔
جنگ شروع ہو چکی ہے اور سوائے چند غداران وطن کے تمام لوگ قطع نظر سیاسی وفاداریوں کے ملک و فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ الفتح میزائل پر ہمارے شہید بچوں کے نام لکھ کر فوج نے بتا دیا ہے کہ وہ اپنے معصوموں کی شہادت بھولی نہیں ہے اور ان کا بدلہ لینے کا عزم محض لفاظی نہ تھی۔
پاکستان فوج کی اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے لڑائی اور اسے تاک تاک کر نقصان پہنچانا تمام مسلمان ملکوں کو بھی بتا رہا ہے کہ مضبوط فوج کسی ملک کی سلامتی کے لئے کتنی ضروری ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے لیکن اس وقت ہم روایتی جنگ میں بھارت کو دھول چٹا کر دنیا کو بتا رہے ہیں کہ افواج کی ریٹنگ اور اسلحہ سے زیادہ ان کی تربیت، پیشہ ورانہ مہارت اور عزم و استقلال اہمیت رکھتا ہے۔ یہ وہ فوج ہے جس کے بجٹ پر ہمیشہ بات ہوتی ہے کہ وہ کھا رہی ہے۔ ساڑھے سات ارب ڈالر بجٹ ہے اور بھارت نے رافیل پر ہی آٹھ ارب پونڈ لگا دیئے۔ یقین کریں مودی و نیتن یاہو میں چنداں فرق نہیں۔ اگر یہ فوج نہ ہوتی تو دشمنوں نے ہمارا حال شام یمن، عراق و غزہ جیسا کرنا تھا۔ قرآن پاک میں اللہ مسلمانوں کو جہاد کی تیاری کا حکم دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اپنے گھوڑے(یعنی ساز و سامان ) تیار رکھو ۔ یہ بات سمجھ نہ آئے تو اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر کی بات ہی سمجھ لیں ۔ اس نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران بہت مہنگا ااسلحہ خریدا تھا جبکہ ان کی معیشت اس کی متحمل نہ تھی۔ بعد ازاں صحافی نے انٹر ویو میں پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو انھوں نے جواب دینے سے پہلے کہا کہ یہ جواب میری وفات کے بعد عام کرنا۔اس کی وفات کے بعد صحافی نے بتایا کہ انھوں نے اسلحہ کے سوال کے جواب میں جوکہا تھا اس کا مفہوم یہ ہے۔’میں نے مسلمانوں کے نبی کی تاریخ پڑھی تھی۔ جب آپﷺ کا انتقال ہوا تو گھر ساز و سامان سے خالی تھا مگر پھر بھی تلواریں لٹک رہی تھیں ۔ تاریخ عیش و عشرت کو یاد نہیں رکھتی صرف فاتح کو یاد رکھتی ہے ‘۔
پاکستانیوں کو میمز بناتے اور بھارتیوں کا مذاق اڑاتے دیکھ کر ایک تبصرہ سنا کہ یہ فوج ہار سکتی ہے مگر قوم نہیں۔ ایسا نہیں ہے کیا فلسطینوں میں کشمیریوں میں ہمت ،حوصلہ اور عزم نہیں ہے ؟ سر پر روز بم و میزائل گر رہے ہوں اور اپنوں کی لاشیں اٹھانی پڑیں تو مزاح نہیں ہوتا۔ یہ مزاح یہ میمز بھی اسی لئے ہیں کیونکہ لاشعوری طور پر ہی سہی سب پاکستانی جانتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اور ان کی فوج کسی بھی ملک کی مہم جوئی کا جواب دینا جانتی ہے۔
کل آپ نے بھارت کا پروپیگنڈا دیکھ لیا۔ کیسے ان کے نیوز چینل نے انھیں پاکستان میں آتے اور لاہور میں بندر گاہ پر قبضہ کرتے دیکھا۔ کیسے انھوں نے ہمارے سپہ سالار کو گرفتار اور وزیر اعظم کو بھاگتے دکھایا ۔ یہ ان کا پروپیگنڈا چینل ہے۔ پانچ عشرے بعد کوئی پاکستانی ان چینلوں کی خبروں کی بنیاد پر ہمارے ملک اور ہماری افواج کے متعلق زبان تراشی کرے تو کیا یہ ٹھیک ہو گا ؟ 1965ء اور 1971ء میں ہمارے غازیوں اور شہداء کی قربانیوں کا بھی پچھلے چند سال کے کچھ عناصر مذاق اڑا رہے تھے۔ مجیب الرحمان کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے تھے مگر تاریخ ادھار نہیں رکھتی ۔ ہر چیز واضح کر دیتی ہے اور اللہ کا لاکھوں کروڑوں بار شکر ہے کہ اتنی جلدی حق و باطل کا فرق واضح کر دیا ہے۔ بطور پاکستانی ہمیں اپنے اداروں پر اعتماد کرنا چاہیے اور دشمن کا آلہ کار بن کر اس کے بیانیے کو مضبوط کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
پاکستان نے اپنی شاندار پیشہ ورانہ کارکردگی سے چین کے حربی سامان کی بھی تشہیر کر دی کیونکہ چین نے تو پچھلی نصف صدی سے کوئی جنگ لڑی ہی نہیں۔ پاکستانی شاہینوں نے سستے سامان کے ساتھ یورپ کے جدید اسلحے کو ٹھکانے لگا دیا۔ ان شاء اللہ جلد ہی پاکستان ایک بڑی دفاعی صنعت بننے جا رہا ہے اور پاکستان سے نہ صرف اسلحہ خریدا جائے گا بلکہ اس کے استعمال کے لئے ہمارے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی۔ اس کے برعکس بھارت کی کاکردگی نے فرانس، اسرائیل اور اب روس کی صنعتوں کو شرمسار کر دیا ہے۔تاہم کسی کو سمجھ شاید ہی آئے کہ یاکستان کی کارکردگی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ مسلمان کے جذبہ ایمانی کی بدولت ہے ورنہ شاید ہی کوئی اور ملک کمتر ٹیکنالوجی کے ساتھ برتر ٹیکنالوجی والوں کو ایسے آگے لگاتا ہو۔ 1965ء میں بھی ہمارے سیبر بھارت کے مگ تیاروں کو تگنی کا ناچ نچاتے تھے۔
پاکستان نے آج بھارت کے کئی ہوائی اڈوں کو تباہ کیا ہے لیکن ہمیں سب سے زیادہ خوشی ہلواڑہ کے تباہ ہونے پر ہوئی۔ 1965ء میں جنگ کے پہلے روز اسی ہلواڑہ پر حملے کے دوران جدید جنگ کا ایک بہترین معرکہ ہوا تھا جس میں سکوارڈن لیڈر رفیقی اور فلائٹ لیفٹنٹ یونس حسن نے دشمن کے کئی طیارے تباہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا اور فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری وطن پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ آج ہلواڑہ میں کسی نامعلوم مقام پرمدفون رفیقی و یونس کی روحیں اپنے جانشینوں کی شاندار کارکردگی پر شاداں و فرحاں ہوں گی۔
ہمارے نوجوانوں کو بھارتی ہٹ دھرمی نے جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ مگر ہمارے شوق شہادت سے معمور جوانوں کا جذبہ قابل دید ہے اور جس دلیری سے وہ بھارتی فضا میں اندر جا کر ان کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ دنیا کو بتا رہے ہیں
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
یہ ہمارے فوجی جوان بھی کسی کے بیٹے ہیں۔ کسی کے بھائی ہیں کسی کے باپ ہیں اور کسی کے شوہر۔ ان کے دل بھی اپنے گھر والوں کی سلامتی کے لئے ایسے ہی دھڑکتے ہیں جیسے ہمارے دل ہمارے اپنوں کے لئے لیکن یہ ایک مقدس فریضے کی انجام دہی کے لئے خود کو وقف کر دیتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کی قدر کیجیے۔ یہ ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اللہ ان سب کو اپنی امان میں رکھے اور میرا ملک دنیا کے نقشے پر ہمیشہ جگمگاتا رہے
ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن پھر بھی تجھے
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
-
ایڈمن: ابنِ ریاض
بتاریخ: مئی 10th, 2025
زمرہ: سنجیدہ تحریریں تبصرے: کوئی نہیں